ثاقب نثار نے عوام کو ڈیم فول کیسے بنایا؟

 ہرسال یہی ہوتا ہے۔ ہر برس پانی اپنے قہر کے نشان چھوڑ جاتا ہے۔ سیلاب کے تند ریلے سب کچھ بہا لے جاتے ہیں۔ مال مویشی، انسان اور فصلیں۔ چند دن تک ایسے واویلا رہتا ہے جیسے گیلی مٹی پر قدموں کی نشان۔چند دن گزرتے ہیں، بین کرنے والے چپ ہو جاتے ہیں، نمناک آنکھیں خشک ہو جاتی ہیں، گھر بار لٹانے والے پھر تنکا تنکا جمع کرنا شروع کرتے ہیں، مٹی کی دیواریں بنتی ہیں، مال مویشی جمع ہوتا ہے۔ یہ تیاری زندگی کے لیے نہیں، اگلے سیلاب کی ہوتی ہے، کیونکہ اب بچ جانے والوں نے اگلے سال پانی کا لقمہ بننا ہے۔ اب زندہ رہ جانے والوں نے اگلے سال اجل کا سامنا کرنا ہے۔زندگی کا دائرہ اس ملک میں اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ ہم کبھی بھارت پر پانی چھوڑنے کا جھٹ الزام لگا دیتے ہیں۔ کبھی سابقہ حکمرانوں کو کوس کوس کر ہلکان ہو جاتے ہیں، کبھی پانی میں ڈوب کر مرنے والوں کو شہادت کے درجے پر فائز سمجھ کر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ ہمارا یہ چلن آج کا نہیں دہائیوں کا ہے۔ ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی عمار مسعود نے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کیا ہے عمار مسعود سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر سیلاب سے بچنے کیلئے ہم ڈیم کیوں نہیں بناتے، اس اثاثے کو محفوظ کیوں نہیں کرتے، اس دولت ربی کو ضائع کیوں ہونے دیتے ہیں؟ اس کے جواب میں ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں، کوئی وجہ نہیں کہ ہم ڈیم کیوں نہیں بناتے۔

عمار مسعود کے بقول ڈیم سے یاد آیا کہ ایک منصف اعظم کے دل میں بھی اس ارمان نے کروٹ لی تھی کہ چلو! چلو!! ڈیم بنائیں۔ سارے ملک میں چندہ مہم شروع ہو گئی۔ جنرل باجوہ نے اس نیک کام میں ہاتھ بٹایا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہ کاٹ کر ڈیم فنڈ کو مالا مال کر دیا۔ اس زمانے میں جس نے اپنا کیس ختم کروانا ہوتا تھا ڈیم فنڈ میں چند لاکھ دے کر معاملہ رفع دفع کروا لیتا تھا۔بینکوں کے باہر آج بھی اس فنڈ کے اکاونٹ نمبرز کے بوسیدہ بینر پھڑ پھڑا رہے ہیں۔ اب کوئی منصف اعلیٰ سے سوال پوچھے کہ وہ ڈیم بنا؟ تو جواب یہی ملے گا کہ ہمارا فرض فنڈ جمع کرنا تھا وہ ہم نے کر دیا، آگے خدا جانے۔ ڈیم نہیں بنا بلکہ اس کی مد میں وصول کردہ رقم بھی تنازعے کا شکار ہو گئی۔ جس نے قوم کو پانی سے بچانا تھا اب اپنے ماضی پر پانی پانی ہو رہا ہے۔ اس عرق ندامت سے قوم کو چند پھٹے ہوئے بینروں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔

عمار مسعود کا کہنا ہے کہ بات سیلاب سے شروع ہوئی تھی ڈیم فول تک جا پہنچی۔تربیلا اور منگلا کے بعد ہمارے ڈیموں کی تاریخ خاموش ہے۔ یا پھر گفتگو کالا باغ ڈیم تک محدود رہتی ہے جس میں صوبے ایک دوسرے پر تلواریں سونت لیتے ہیں۔ ہر حکمران اس ڈیم کو بنانے کا عزم کرتا ہے،اور پھر ہر کوئی اس سے اجتناب برت لیتا ہے۔ سیاسی مصلحت قومی مفاد پر حاوی ہو جاتی ہے۔ زمین پیاسی رہتی ہے یا پھر اس کی ساری شادابیاں پانی میں ڈبو دی جاتی ہیں۔کبھی ملکی مفاد کی آڑ میں اپنی حرص کو پوشیدہ کرنے والوں سے پوچھنا تو چاہیے کہ اس قومی فرض سے روگردانی کیوں کی گئی؟ اس اہم ذمہ داری کو کیوں بھلا دیا گیا؟ایسا نہیں ہے کہ ڈیم نہیں بنے۔ ڈیم بنے، بسااوقات تو اس قدر زیادہ بنے کہ پانی تو چھوڑیں، ڈیم تک سنبھالنا مشکل ہوگیا۔ یاد ہی ہو گا آپ کو وہ زمانہ جب مرکز میں مسلم لیگ ن کی حکومت اور خیبر پختونخوا میں خان صاحب کی جماعت براجمان تھی۔ اس وقت دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہم تین سو پچاس ڈیم بنائیں گے۔ جن لوگوں نے تربیلا اور منگلا ڈیم دیکھے ہیں، وہ سوچ میں پڑ گئے کہ یا اللہ ! اتنے سے خیبر پختونخوا میں اتنے بڑے تین سو پچاس ڈیم کیسے بنیں گے۔اس وقت تبدیلی کا لڑکپن تھا اس لیے کوئی معترض نہیں ہوا۔ تین سو پچاس ڈیم کا نام آتے ہی سب نعرے لگاتے، تالیاں بجاتے اور کپتان کے گیت گاتے تھے۔ جیسے جیسے حکومت کے دن بیتتے گئے ڈیم رقبہ کم ہوتا گیا۔ وہ ڈیم جس نے ملک کو سیراب کرنا تھا وہ محلے کے ہینڈ پمپ اور واٹر کولروں میں تبدیل ہو گئے۔المیہ یہ نہیں کہ قوم سے جھوٹ بولا گیا، المیہ تو یہ ہے کہ ان ہینڈپمپوں اور واٹرکولروں کے افتتاح کی تصاویر کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ حکومت کے آخری سال بتایا گیا کہ یہی ہینڈ پمپ ڈیم ہیں ۔ یہی تمہارا مقدر ہیں، یہی سوکھنے

مرشدِ کامل کا فرمان

والے نلکے تمہارا مقدر ہیں۔

Back to top button