وزیر اعلیٰ کے علاوہKPکی پوری نگراں کابینہ کیوں فارغ ہوئی؟

گورنر خیبرپختونخوا نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعتراض کے بعد صوبے کی 25 رُکنی نگراں کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کر دیا ہے۔مستعفی ہونے والی کابینہ میں 14 نگراں وزرا، 11 مشیر اور معاونیں خصوصی شامل ہیں۔خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے اعتراض عائد کیا تھا کہ کابینہ میں شامل بیشتر وزرا سیاسی وابستگی رکھتے ہیں، لہذٰا وزیرِ اعلٰی ان سے استعفے لیں۔ کچھ دن پہلے الیکش کمیشن نے بھی نگراں وزیر اعلیٰ کو مراسلہ بھیجا تھا جس میں کابینہ میں شامل سیاسی وابستگی والے نگراں وزرا کو ہٹانے کی ہدایت کی تھی۔ اس کے بعد نگراں وزیراعلیٰ اعظم خان نے تمام وزرا، مشیران اور معاونین خصوصی سے استعفے جمع کرانے کا کہا تھا۔خیبرپختونخوا کے ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے نگراں وزرا، مشیران اور معاونین خصوصی کے استعفے منظوری کے لیے سمری گورنر خیبرپختونخوا کو بھجوائے گئے تھے جسے انہوں نے منظور کرلیا۔

واضح رہے کہ نگراں کابینہ میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی)، جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت دیگر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وزرا شامل تھے۔ جمعرات کو نگراں وزیرِ اعلٰی اعظم خان نے نگراں کابینہ کے اراکین سے استعفے طلب کیے تھے۔یہ استعفے ایسے وقت میں طلب کیے گئے تھے جب نو اگست کو قومی اسمبلی بھی تحلیل ہو گئی ہے اور مرکز میں نگراں انتظامیہ کا معاملہ زیرِ غور ہے۔نگران وزیر اطلاعات فیروز جما ل شاہ کاکا خیل کے مطابق صوبائی کابینہ میں شامل تمام وزیر مشیر اور معاونین خصوصی کو فارغ کردیا گیا ہے جبکہ نگران وزیراعلیٰ اعظم خان اپنے منصب پر موجود رہیں گے۔ صوبے کے لیے غیر سیاسی افراد پر مشتمل نگران کابینہ جلد تشکیل دی جائے گی۔

دوسری جانب پشاور کے سینئر صحافی عرفان خان کہتے ہیں کہ نگراں وزیرِ اعلٰی نے سیاسی وابستگیاں رکھنے والے وزرا سے استعفے طلب کیے تھے، کیوں کہ الیکشن کمیشن نے اس پر اعتراض کیا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نگراں وزیرِ اعلٰی کو خط لکھ کر نگراں کابینہ میں شامل افراد سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا تھا۔نگراں وزیرِ اعلٰی نے کابینہ میں شامل وزرا اور مشیروں کو جمعرات کو چائے پر مدعو کیا، جہاں پہلے سے ہی تحریر شدہ استعفے موجود تھے۔اُن کے بقول مستعفی ہونے سے انکار کرنے والے وزرا کو برطرف کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔عرفان خان کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پیپلزپارٹی سے وابستہ وزرا نے مستعفی ہونے سے انکار کیا تھا۔

واضح رہے کہ حکومت میں شامل اس وقت کے مسلم لیگ (ن) کے بعض وزرا کی طرف سے ایسے بیانات سامنے آئے تھے کہ اگر عام انتخابات نئی مردم شماری پر ہوئے تو الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہو گی جس میں چار ماہ لگ سکتے ہیں۔بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شاید اسی لیے خیبر پختونخوا میں ایک غیر جانب دار کابینہ کی ضرورت ہے۔پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے علاوہ کسی دوسری سیاسی جماعت یا گروپ نے خیبر پختونخوا کی نگران کابینہ میں شامل وزرا اور مشیروں سے استعفے لینے پر کسی قسم کے ردِعمل کا اظہار نہیں کیا۔

پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے سیکرٹری اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ الیکشن کمیشن کو آٹھ ماہ بعد نگراں کابینہ کے سیاسی ہونے کا خیال آیا جب نگرانوں نے عوام کا کچومر نکال دیا۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے لیے شعر ہے کہ "بہت دیر کر دی مہرباں آتے آتے۔”واضح رہے کہ 21 جنوری کو گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی کے احکامات کے بعد اعظم خان نے نگراں وزیراعلیٰ کے طور پر حلف اٹھایا تھا۔خیبرپختونخوا کے گورنر ہاؤس میں منعقدہ تقریب میں گورنر حاجی غلام علی نے اعظم خان سے نگراں وزیراعلیٰ کا حلف لیا تھا۔

اس سے قبل گورنر ہاؤس سے جاری نوٹیفکیشن میں بتایا گیا تھا کہ 20 جنوری کو تحلیل کی گئی اسمبلی کے وزیراعلیٰ محمود خان اور اپوزیشن لیڈر اکرم درانی کی جانب سے نگران وزیراعلٰی کے لیے محمد اعظم خان کا نام متفقہ طور پر تحریری طور پر تجویز کیا گیا تھا۔ 20 جنوری کو خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے اسلام پاکستان سمیت اپوزیشن جماعتوں نے سابق چیف سیکریٹری اعظم خان کو نگراں وزیراعلیٰ بنانے پر اتفاق کیا تھا۔

Back to top button