مشن پنجاب، زرداری نے سیاسی فیلڈنگ لگانا شروع کر دی

الیکشن کمیشن کی جانب سے جنوری کے آخری ہفتے میں عام انتخابات کروانے کے اعلان کے بعد ملکی سیاست میں نئی ہلچل مچ گئی۔ ن لیگ کے بڑوں نے جہاں لندن میں بڑی بیٹھک لگا لی، وہیں ملک بھر میں نئے اتحاد بنانے کے لیے سیاسی ملاقاتوں کا سلسلہ زور پکڑ گیا ہے۔پنجاب سے اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے پیپلز پارٹی نے انتخابات سے قبل اپنی سیاسی فیلڈنگ سیٹ کرنا شروع کر دی ہے۔پیپلز پارٹی کی سیاسی حکمت عملی اور بیانات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سابق صدر آصف زرداری کی نظریں سندھ سے زیادہ پنجاب پر جمی ہوئی ہیں۔

خیال رہے کہ آصف زرداری پچھلے کئی روز سے لاہور میں بیٹھ کر بدلتے ہوئے سیاسی حالات کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ انہوں نے پارٹی سطح پر اجلاس سمیت سیاسی ملاقاتوں اور اہم افراد کی پارٹی میں شمولیت کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔21ستمبر کو الیکشن کمیشن کے عام انتخابات کے انعقاد کے اعلان کے چند گھنٹے بعد ہی سابق صدر آصف زرداری اور مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے مابین اہم ملاقات ہوئی جس میں الیکشن کے حوالے سے مشاورت کے ساتھ ساتھ پنجاب میں انتخابی اتحاد قائم کرنے اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کی تجویز پر طویل گفتگو ہوئی جبکہ شہباز شریف کی اچانک لندن روانگی اور نواز شریف کا اسٹیبشمنٹ مخالف بیانیہ بھی گفتگو کا موضوع بنا۔

ق لیگ کے ذرائع کے مطابق آصف زرداری سمجھتے ہیں کہ نواز شریف وطن واپس آکر جو سیاست کرنا چاہتے ہیں وہ سیاست اس وقت بہت مشکل ہوگئی ہے، اور انہیں یہی بات سمجھانے شہباز شریف لندن گئے ہیں۔ پیغام یہی ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے سے ن لیگ کو نقصان ہوگا اور 21 اکتوبر کو نواز شریف کی وطن واپسی میں مشکلات حائل ہوسکتی ہیں۔ذرائع کے مطابق آصف زرداری کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیب کے مقدمات کی بحالی کے بعد سیاست اب دوبارہ سے احتساب کے گرد گھومے گی۔ تاہم وہ شہباز شریف کی طرز سیاست پر مطمن نظر آئے۔ چوہدری شجاعت حسین نے نواز شریف کی واپسی پر تبصرہ کیا کہ وہ اگر واپس آبھی جائیں تو ان کی جماعت کا آئندہ انتخاب میں کامیاب ہونا مشکل نظر آتا ہے کیونکہ ان کی جماعت کی عوامی پذیرائی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے ۔

مسلم لیگ ق کے ذرائع کے مطابق دوران ملاقات چوہدری سالک اور چوہدری شافع حسین کا موقف تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے بظاہر پیپلز پارٹی سے اپنا طلسماتی ہاتھ اٹھا کر ن لیگ پر رکھ دیا ہے، جس پر آصف زرادری نے کہا کہ اس بات سے پریشان نہ ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ کس کے اوپر ہے۔ذرائع کے مطابق آصف زرداری کا موقف تھا کہ انہیں معلوم ہے کہ کون سا پتہ کس وقت پھینکنا ہے۔انہوں نے ق لیگ کو الیکشن کی تیاری کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ آگے معاملات ان پر چھوڑ دیے جائیں۔ جو ان کے ساتھ وفا کرتا ہے وہ اس کے ساتھ وفا کرتے ہیں اور چوہدری شجاعت یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ذرائع کے مطابق چوہدری سالک حسین نے جنوبی پنجاب کے 3 سے 4 حلقوں سمیت ٹوبہ ٹیک سنگھ اور خانیوال کے ایک ایک حلقے میں پیپلزپارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کی خواہش کے اظہار پر آصف علی زرادی نے ان نشستوں پر بطور اتحادی الیکشن لڑنے کا عندیہ دیدیا ہے۔آصف زرداری اور شجاعت حسین کی اس ملاقات میں آئندہ انتخابی بیانیے پر بھی بات ہوئی، ق لیگی ذرائع نے بتایا کہ آصف علی زرداری کافی مطمئن نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا بیانیہ ایک ہی ہے، روٹی ،کپڑا اور مکان! ’ہم اس پر ہی الیکشن لڑیں گے اور اس پر ہی سیاست کریں گے، ہم اپنے منشور کے ساتھ عوام کے پاس جائیں گے۔‘

جہاں آصف زرداری پنجاب کے محاذ پر سرگرم ہیں، وہیں سندھ میں بھی نئے اتحاد بنتے اور پُرانے بگڑتے نظر آ رہے ہیں کیونکہ ایم کیو ایم نے آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن سے اتحاد کی خواہش کا اظہار کر دیا ہے۔دوسری جانب جی ڈی اے بھی ایم کیو ایم سمیت مخلتف سیاسی جماعتوں سے انتخابات سے قبل رابطوں میں نظر آ رہی ہے۔ جماعت اسلامی نے اعلان تو کیا ہے کہ ہم کسی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد نہیں کریں گے مگر اس اعلان کے ساتھ ساتھ گورنر سندھ کو ملاقات کی دعوت بھی دے دی ہے۔ گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کی امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان سے طویل اہم ملاقات ہوئی جس میں ملکی سیاست اور انتظامی معاملات پر اہم گفتگو ہوئی۔ اب دیکھنا یہ ہے انتخابات سے قبل سندھ کی سیاست میں پہلے تبدیلی آتی ہے یا پھر پنجاب کی سیاست میں۔

نواز شریف اگر 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آ جاتے ہیں تو پیپلز پارٹی کیا پنجاب کو فتح کر پائے گی؟ ایم کیو ایم جو کبھی کسی کی اتحادی ہوتی ہے تو کبھی کسی کی، اس بار ایم کیو ایم کس کا ساتھ دے گی؟ سندھ کی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی اور پنجاب کس کے ہاتھ آئے گا؟ مبصرین کے مطابق ان سوالوں کے جواب آنے والا وقت ہی دے گا۔

Back to top button