عمران ’سلیکٹر‘‘ کی بیعت کر کے سلیکٹ کیوں ہونا چاہتا ہے؟

الیکشن کے بعد اس بار اڈیالہ جیل کے قیدی 804عمران کی سمت میں بھی تبدیلی محسوس ہوئی کہ کم از کم اپنے چار میں سے دو سیاسی مخالفین جن کے بارے میں خان صاحب ایک زمانے میں خاصے ہتک آمیز ریمارکس دیتے رہے ہیںان سے نہ صرف بات چیت کا دروازہ کھلا بلکہ انہوں نے ان میں سے ایک سینئر سیاستدان محمود خان اچکزئی کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا ۔اگر عمران خان پیپلز پارٹی سے حکومت سازی کے مذاکرات کا دروازہ بھی کھول لیتے تو شاید اب کی بار مسلم لیگ (ن) حکومت نہ بنا پاتی، آخر کب تک یہ سیاستدان ’سلیکٹر‘‘ کے ہاتھوں ہی بیعت کر کے سلیکڈ ہونا چاہتے ہیں. ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی مظہر عباس نے اپنے ایک کالم میں کیا ہے . وہ لکھتے ہیں کہ یہ سیاسی حقیقت ہے کہ نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کو سیاست میں بھٹو کا سحر ختم کرنے کیلئے لایا گیا تھا وہ جنرل ضیاء اور جنرل جیلانی کے سیاسی وارث تھے جن کا محور وہ پنجاب تھا جو اس وقت تک بھٹو کا دیوانہ تھا۔ 10اپریل 1986کو بے نظیر طویل جلا وطنی ختم کر کے لاہورواپس آئیں تو ایئر پورٹ سے مینار پاکستان تک سر ہی سر تھے۔ ISI کے سابق سربراہ جنرل حمید گل مرحوم نے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ ، ’’اس استقبال سے فوج کے اندر کچھ حلقوں میں خوف پیدا ہو گیا کہ بے نظیر کہیں فوج سے انتقام تو نہیں لے گی مگر میں جب پہلی بار ان سے ملا تو مطمئن تھا کہ وہ ایک محب وطن خاتون ہیں۔‘‘ اب یہ الگ بات ہے کہ اس سب کے باوجود اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا ، بی بی کا راستہ روکنے کیلئے شریفوں کو استعمال کیا گیا۔ اس نے ایک نئی سیاسی کشمکش کو جنم دیا جس میں لسانی رنگ بھی نظر آیا جب نعرہ لگا، ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ ۔ اس میں شدت آتی گئی. اصغر خان جیسے کیس سامنے آئے۔ پھر جب خود میاں نواز شریف کے خلاف اسی طرح کی سازشیں ہوئیں اور بے نظیر استعمال ہوئیں تو سیاست نے ایک اور سمت لے لی مگر دونوں کے اندر یہ سوچ اس وقت اجاگر ہوئی جب 2002میں جنرل پرویز مشرف نےبے نظیر بھٹو اور نواز شریف،دونوں کو جمہوری عمل سے با ہر کر دیا اور انتخابات میں حصہ نہ لینے دیا۔ مظھر عباس بتاتے ہیں کہ 2005 سے 2006تک شریفوں اور بی بی نے مذاکرات کے بعد ایک تاریخی میثاق جمہوریت پر معاہدہ کیا جو ایم آر ڈی کا تسلسل تھا۔ کاش یہ 1988میں ہو جاتا۔ دوسری طرف عمران خان یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ بی بی اور شریف کو سسٹم سے باہر کر کے ان کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں گے۔ مگر جب وہ مشرف کے دربار میں پہنچے تو وہاں چوہدریوں کو دیکھ کر انہیں احساس ہوا کہ ان کی سمت درست نہیں تھی۔ وہ مشرف مخالف تحریک کا حصہ بن گئے۔ 2007میں جب بی بی اور پرویز مشرف میں این آر او ہوا تو عمران ، نواز شریف اور قاضی حسین احمد مرحوم ایک اتحاد کا حصہ تھے۔ 2008 ءسے 2024 تک سیاسی جماعتوں نے اپنی سمت کئی بار بدلی ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان اور موقف اپنایا مگر مذاکرات کا رستہ کھلا رکھا۔ عمران خان اس ضمن میں شاید کچھ آگے چلے گئے تاہم انہوں نے اپنے آپ کو اور اپنی جماعت کو ایک سیاسی حقیقت ثابت کیا۔ مظہر عباس کے مطابق 2024 کا الیکشن ایک ریفرنڈم ہے، وہ ایک ردعمل ہے ان پالیسیوں کا جو پچھلے ایک ڈیڑھ سال میں رہیں ۔ اس کو مثبت انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی کو زور زبردستی ، قید میں ڈال کر ، سزا اور نااہل کر کے بھی فیصلہ آپ کے خلاف آ سکتا ہے. کیا ہی بہتر ہوتا کہ الیکشن کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں بانی پی ٹی آئی اپنے باقی دو سیاسی مخالفین سے نہ سہی ان میں سے ایک سے مذاکرات کا دروازہ کھولتے تو شاید اس وقت مسلم لیگ (ن) کیلئے حکومت بنانا ناممکن سا ہوجاتا کیونکہ پیپلز پارٹی نے حکومت سازی کے لئے مذاکرات کا اشارہ بھی کیا تھا۔آخر کب تک یہ سیاستدان ’سلیکٹر‘‘ کے ہاتھوں ہی بیعت کر کے سلیکڈ ہونا چاہتے ہیں۔ بھٹو سے نواز شریف تک اور چوہدریوں سے عمران خان تک سیاستدان اب بھی اگر اپنی سیاستی سمت کا تعین نہیں کر پا رہے تو اس ریاست میں نہ ووٹ کو عزت مل سکے گی نا جمہوریت بہترین انتقام، ثابت ہو سکے گی اور اس سیاسی کشمکش میں جمہور کا نظام سے اعتبار ختم ہو جائے گا۔ یہی آج کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔

Back to top button