’’ہولی پر گائے کے پیشاپ سے تیارہ کردہ پیلا رنگ‘‘

بھارت میں ہولی کے تہوار پر لوگ ایک دوسرے کو رنگوں سے نہلاتے ہیں لیکن اکثریت اس بات سے واقف نہیں ہوتے کہ ان پر منہ پر لگنے والے رنگ کیسے تیار کیے گئے ہیں، ماضی میں جدید ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی پر ان رنگوں کو نایاب نیلے معدنیات، حنوط شدہ لاشوں کی باقیات اور گائے کا پیشاب سے تیار کیا جاتا تھا۔پرانے وقتوں میں رنگ بنانا اتنا آسان نہیں تھا جتنا آج ہے، اس وقت مصنوعی طور پر رنگ بنانے کی کوئی ٹیکنالوجی موجود نہیں تھی مگر اس وقت بھی رنگ لوگوں کے زیرِ استعمال رہتے تھے۔اجنتا کے غاروں کی قدیم آرٹ، مغل دور کی مصوری اور قدیم یورپی پینٹنگز، سبھی میں رنگوں کا استعمال کیا گیا۔’انڈین ییلو‘ نامی اس خاص رنگ کو سنہری پینٹگز میں استعمال کیا جاتا تھا۔ اس رنگ کا استعمال 15ویں صدی میں شروع ہوا اور وہاں سے وہ یورپ پہنچ گیا، مغل دور کی کئی پینٹنگز میں یہ رنگ پایا جاتا ہے۔ یورپ میں دیواروں پر مصوری، آئل پینٹنگز اور واٹر کلرز میں بھی یہ رنگ شامل ہے، معروف مصور وین گوف کی پینٹنگ (دی سٹاری نائٹ) میں پیلا چاند اور انگلش مصور ٹرنر کی پینٹنگ میں سورج کی کرنیں ’انڈین ییلو‘ نامی رنگ کی وجہ سے ہی ایسی دکھائی دیتی ہیں۔اس رنگ کو بنانے کے طریقۂ کار پر ایک رپورٹ 1883 میں لندن کی سوسائٹی آف آرٹس میں پیش کی گئی تھی۔رپورٹ کے مصنف تریلوکناتھ موکھوپادھیے منگر (موجودہ بہار) گئے جہاں انھوں نے رنگ بنانے کے طریقے پر تحقیق کی۔ اس دوران انھوں نے گائے کے ساتھ ظلم کی بھی تفصیلات لکھیں۔1908 میں اس رنگ پر پابندی عائد ہوئی جس کے بعد جدید کیمیکلز سے تیار کردہ پیلا رنگ استعمال کیا جانے لگا۔دیوالی پر رنگولی بنانے سے قبل گیرو سے بنائے گئے رنگوں کو زمین پر پھیلا دیا جاتا ہے۔ دراصل گیرو سرخ اور پیلی پٹی کا نام ہے جس میں آئرن آکسائیڈ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ آئرن اور دیگر معدنیات کی مقدار کے مطابق اس کا رنگ الگ ہوسکتا ہے۔قدم مصری دریائے نیل کی وجہ سے نیلے رنگ کو پسند کرتے تھے مگر وہ اس رنگ کا دور سے لانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔اس لیے مصری فنکاروں نے سیلیکا، لائم، کاپر اور الکلی کا استعمال کر کے کیمیکل رنگ بنائے۔ مصریوں کے اس رنگ کو دنیا کے پہلے کیمیکل پگمنٹس میں شمار کیا جاتا ہے۔چین میں بیریئم، کاپر اور سیلیکیٹ پگمنٹس استعمال کر کے نیلے اور جامنی رنگ بنائے جاتے تھے جنھیں ہان بلیو اور ہان پرپل کہا جاتا تھا۔ہندوستان میں نیلے رنگ کے کپڑے بنانے میں نیل استعمال ہوتا تھا مگر سنگ لاجورد کا رنگ زیادہ پُرکشش تھا۔ اس لیے نیلے معدنیات کو پگھلی ہوئی ویکس، تیل اور صنوبر کی گوند کے ساتھ ملا کر پگمنٹ بنایا جانے لگا مگر ہزار سال قبل عرب تاجر سنگ لاجورد کو یورپ لے گئے جس نے منظرنامہ بدل دیا۔ اس وقت یہ یورپ میں سونے سے بھی مہنگا تھا اور اس کا استعمال صرف کچھ جگہوں تک محدود رہا۔اس رنگ کو شاہی خاندان کی اہم شخصیات، حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم کی پینٹنگز میں استعمال کیا جاتا تھا۔پارہ کی قسم شنگرف کو یوں تو زہریلا سمجھا جاتا ہے مگر اس سے نارنجی مائل سرخ یا قرمزی رنگ حاصل ہوتا ہے۔آتش فشاں سے جڑے ان معدنیات کو قدیم وقتوں میں سُرخ رنگ بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس رنگ کو سندوری سرخ بھی کہتے ہیں۔ چین، انڈیا اور مایا (میکسیکو-امریکن) تہذیبوں کے لوگ اسی طریقے سے اس رنگ کو بناتے تھے۔16ویں اور 17ویں صدی کے دوران مصر میں حنوط شدہ لاشوں (ممی) سے حاصل ہونے والا براؤن پگمنٹ مقبول ہوا۔آرٹ کی محقق وکٹوریا فنلے نے اپنی کتاب میں بھی اس حوالے سے بتایا ہے چونکہ یہ رنگ کچھ حد تک جھلک دار ہے، اس لیے پینٹنگز میں انسانی رنگ اور سائے بنانے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا ہے۔اس براؤن رنگ کو قدیم دور کی حنوط شدہ لاشوں کے باقیات سے بنایا جاتا تھا۔