کیا اپوزیشن کا 6 جماعتی اتحاد فوج اور حکومت کو ہلا پائے گا؟

کیا اپوزیشن کا 6 جماعتی اتحاد فوج اور حکومت کو ہلا پائے گا؟

تحریک انصاف نے چھ سیاسی جماعتوں کا اتحاد تو بنا لیا ہے جس کے تحت بحالی آئین تحریک کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے لیکن حکومت اور اپوزیشن کیلئے اصل چیلنج پنجاب میں ہو گا جہاں مریم نوازکی حکومت ہے۔ اپوزیشن ایک ایسے موقع پر جلسوں کا پروگرام تشکیل دے رہی ہے جب 21 اپریل کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں۔ ایک ناخوشگوار واقعہ یا ریاستی جبر تحریکوں میں جان ڈال دیتا ہے۔ یہ ہی مریم نواز اور اتحادی حکومت کا امتحان ہو گا۔دوسری جانب پی ٹی آئی اور اپوزیشن اتحاد کا اصل امتحان اپنے حامیوں کو جلسے جلوسوں میں لانا اور کنٹرول کرنا ہو گا۔ سینئر صحافی مظہر عباس اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ بدقسمتی سے اس ملک کی سیاست گیٹ نمبر4 سے شروع ہو کر کورٹ نمبر 1 پر ختم ہو جاتی ہے اور اب تو یہ مدت سے عدت پر آ گئی ہے۔ ایسے میں سیاسی تحریکوں کے سیاسی اہداف بھی بدل گئے ہیں۔ پہلے تحریکوں، جلسے، جلوسوں کے انداز مختلف ہوتے تھے، وقت کے ساتھ ان میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔پچھلے چند سال میں ایک تحریک ہمیں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف دیکھنے کو ملی جسکی قیادت مولانا فضل الرحمان نے کی تھی مگر وہ اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ (پی ڈی ایم) اختلافات کا شکار رہا۔ مولانا کی اپنی لائن تھی، شریفوں کی اپنی اور آصف علی زرداری کی اپنی۔ مگر خود عمران خان نے اتنی غلطیاں کیں کہ کسی مخالف تحریک کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوئی۔ اس کا اعتراف خود انکے اپنے بہت سے ساتھی کرتے ہیں . عمران اسماعیل سے لے کر اس عثمان بزدار تک جس کیلئے عمران نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت نجانے کس کس سے ناراضی مول لی آج عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں شائد ہی کوئی انکےساتھ اس مشکل وقت میں کھڑا ہے . ایسے میں ہم نے دیکھا کہ پی ڈی ایم اور نہ ہی پی پی پی الگ یا مشترکہ طور پر کوئی مہم چلا سکیں اور آخر میں وہ استعمال ہوئیں بھی تو عمران خان اور جنرل باجوہ کے اختلافات کی وجہ سے یوں عدم اعتماد کی تحریک آئی بھی اور کامیاب بھی ہوئی. مظہر عباس کا کہنا ہے کہ عمران خان جس ہائبرڈ نظام کے تحت لائے گئے تھے اسی کے تحت ہٹا دیئے گئے فرق صرف یہ پڑا کہ کل تک شریف اور زرداری جس نظام کے خلاف بو ل رہے تھے وہ اسی کا حصہ بن گئے ہیں . عمران خان کیلئے اقتدار سے بے دخلی خوش قسمتی ساتھ لائی اور پی ڈی ایم خاص طور پر مسلم لیگ(ن) اور انکے سربراہ تین بار کے وزیر اعظم نواز شریف کیلئے بدقسمتی، اقتدار ملا بھی توایسا جس نے 16ماہ میں مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کا گراف اس حد تک گرا دیا کہ آج حکومت میں ہوتے ہوئے بھی وہ حکومت کرتے نظر نہیں آتے۔ تاہم جہاں حکومت ناکام نظر آئی وہاں تحریک انصاف بھی موثر تحریک نہ چلا پائی۔ دو بار دھرنے کی کال دی گئی مگر خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔ پھر عمران کی سب سے بڑی سیاسی غلطی پنچاب کے تجربہ کار وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کے منع کرنے کے باوجود، پنجاب اور پختونخوا کی اپنی ہی حکومتوںکا خاتمہ اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنا تھی ،۔ عین ممکن تھا کہ اگر پنجاب اور کے پی کی حکومتیں پی ٹی آئی کے پاس ہوتیں تو 9مئی نہ ہوتا اور ان دو صوبوں میں نگراں حکومتیں بھی ان ہی کی مرضی کی ہوتیں۔ اسمبلیاں وقت پر تحلیل ہوتیں خیر وہ ہوئیں بھی مگر الیکشن آئین کے مطابق وقت پر نہ کرائے گئے یعنی اگست میں تحلیل ہونے کے بعد لازمی تھا کہ انتخابات نومبر کے پہلے ہفتے میں ہوتے۔ عمران خان یا پی ٹی آئی کی بڑھتی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ پی ڈی ایم اور پی پی پی کی16ماہ کی ناقص کارکردگی خاص طور پر ناقابل برداشت مہنگائی ہے۔پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ سیاسی نقصان 9مئی سے ہوا مگر جس طرح پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈائون ہوا بات و ہیں تک رہتی تب بھی غنیمت تھی۔ مظہر عباس کے مطابق پھر ایک سلسلہ چلا کہ کس طرح کے الیکشن کرائے جائیں۔ میاں نواز شریف تین سال بعد واپس آئے تو انہیں خود بھی اندازہ ہو گیا کہ زمینی حقائق عمران کے حق میں جا چکے ہیں جس کی وجہ خود انکےبھائی کی حکومت ہے۔ اب عمران نااہل قرار پایا، سزا بھی ہوئی، پارٹی توڑی بھی گئی، سب سے بڑھ کر انتخابی نشان ’بلا ‘بھی لے لیا گیا ۔مگر جو کچھ 8فروری 2024کو ہوا وہ دراصل ووٹ کی عزت تھی پھر جو 9فروری کو ہوا وہ ووٹ کی اور ووٹر کی بے عزتی تھی۔ جو جتوائے گئے انہیں بھی پتا ہے اور جو ہروائے گئے وہ ہار کر بھی جیت گئے۔ اب پی ٹی آئی نے چھ سیاسی جماعتوں کا اتحاد تو بنا لیا ہے اور اسکی سربراہی پختون قوم پرست لیڈر محمود خان اچکزئی کے پاس ہے اور اسکے تحت تحریک بحالی آئین کا آغاز بلوچستان سے ہوگیا ہے اس کا بظاہر ہدف عمران خان کی رہائی اور حکومت کا خاتمہ نظر آتا ہے مگر تحریکیں واضح روڈ میپ کےبغیر کامیاب نہیں ہوتیں، خاص طور پر اگر وہ اپنے وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہوں۔ تاہم اگر یہ اتحاد کوئی موثر پریشر بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو حکومت دبائو میں آ سکتی ہے اور اس کیلئے آئی ایم ایف اور آئندہ بجٹ بنانا آسان نہ ہو گا۔ پاکستان کی تین بڑی سیاسی تحریکوں کا جائزہ لیں تو آج کا سبق بھی اور تاریخ کا سبق بھی یہی ہے کہ 1973 کا آئین اور ہائبرڈ نظام ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ آواز جتنی طاقتور ہو گی اتنا جمہوریت کو فائدہ اور آئین کو تحفظ حاصل ہو گا ورنہ ذمہ داری سیاستدانوں پر ہی عائد ہو گی کیونکہ دوسرے تو احتساب سے بالاتر ہیں۔

Back to top button