پاکستان میں ہیپا ٹائٹس کے مریضوں کی تعداد کیوں بڑھنے لگے؟

غیرمعیاری انجیکشن لگوانا، غیر ٹیسٹ شدہ خون کی منتقلی اور صفائی کا انتظام نہ کرنے والے حجام سے شیو کرانا ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں ہیپاٹائٹس جیسے خطرناک مرض کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، پاکستان میں اس وقت 88 لاکھ افراد ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا ہیں، ہیپاٹائٹس بی کے 38 لاکھ متاثرین کی شمولیت کے ساتھ یہ تعداد ایک کروڑ 26 لاکھ بنتی ہے۔’’ ڈی ڈبلیو اردو‘‘ نے پاکستان میں ہیپاٹائٹس کی صورتحال، وجوہات، بچاؤ کی تدابیر اور سرکاری سطح پر اس کے خاتمے کیلئے کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے، ہیپاٹائٹس کی مختلف اقسام میں سے ”سی‘‘ اور ”بی‘‘ سب سے زیادہ خطرناک ہیں اور پاکستان ان پانچ ممالک میں شامل ہے جہاں یہ دونوں وائرس سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ضیاء الدین یونیورسٹی ہسپتال کراچی میں gastroenterology شعبہ کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ضیغم عباس کے مطابق پاکستان میں تقریباً ’’سالانہ ایک لاکھ بیس ہزار افراد ہیپٹائٹس سے ہلاک ہوتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق ڈبلیو ایچ او کا کم از کم ہدف ہے کہ ہر ملک میں نئے پیدا ہونے والے 90 فیصد بچوں کو ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین ضرور لگائی جائے لیکن پاکستان میں 2020 ء کے دوران یہ شرح محض 77 فیصد رہی، ٹراپیکل میڈیسن اینڈ ہیلتھ میں ”نیشنل رجسٹری اِن پاکستان: نیڈ فار ہیپاٹائٹس کنٹرول‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی حالیہ تحقیق کے مطابق 2030 ء تک ہیپاٹائٹس کے خاتمے کے لیے پاکستان کو سالانہ ایک کروڑ اٹھاسی لاکھ ٹیسٹ کرنے ہوں گے اور گیارہ لاکھ افراد کا علاج کرنا ہوگا۔ملک میں ہیپاٹائٹس پھیلانے میں درج ذیل عناصر بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ”خون کی منتقلی (15 فیصد)، ہاسپٹل ہسٹری (14 فیصد)، دانتوں کا علاج (13 فیصد)، انجیکشن یوز (12 فیصد) اور سرجیکل ہسٹری (9 فیصد)۔” خون دینے والے افراد میں سے تقریباً نصف کا ہیپاٹائٹس ٹیسٹ کیے بغیر خون نکال کر دوسرے افراد کو لگا دیا جاتا ہے۔”پاکستان میڈیکل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز سے وابستہ ڈاکٹر اکرام اللہ کا ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بہت معمولی چیزوں پر توجہ دے کر ہم ہیپاٹائٹس جیسی مہلک بیماریوں سے بچ سکتے ہیں، سب سے پہلے تو یقینی بنائیں کہ آپ ہیپاٹائٹس ”اے اور بی‘‘ کی ویکسین لگوا چکے ہیں۔ یہ سرکاری ہسپتالوں میں موجود ہے۔ ہیپاٹائٹس اے اور ای آلودہ پانی اور خوراک سے پھیلتا ہے، صاف ستھری غذا ہر طرح کی بیماری سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے۔ پانچ سات سو روپیہ کچھ زیادہ نہیں، شیونگ کٹ خریدیں، حجام کے اوزار پر اعتماد نہ کریں۔ بچوں کی ویکسینیشن والدین کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہونی چاہئے۔ سرگودھا کے نجی ہسپتال میں شعبہ امراض جگر کی سربراہ اور پی ایم اے کی رکن ڈاکٹر فاطمہ عزیز ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں، ”ہم بعض اوقات چیزوں کو بہت سادہ انداز میں دیکھتے ہیں۔ اوسط درجے کے نجی ہسپتال میں دانت نکلوانے کی فیس تقریباً پانچ ہزار ہے جو ایک بہت بڑی آبادی کی پہنچ سے باہر ہے۔ وہ فٹ پاتھ پہ بیٹھے تین چار سو میں دانت نکالنے والے کے پاس جائے گا جو یقیناً محفوظ آلات استعمال نہیں کر رہا ہوگا۔پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے ڈی ڈبلیو او کی حالیہ رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہیپاٹائٹس کے حوالے سے ”بھرپور عوامی آگاہی مہم شروع کرے۔ ملک بھر میں ٹیسٹ کروانے کی آسان اور سستی سہولیات فراہم کرے۔ بالخصوص دیہی علاقوں میں صحت سہولیات کو بہتر بنائے اور تحقیق کے لیے فنڈ فراہم کرے۔ڈاکٹر فاطمہ عزیز کہتی ہیں، ”حکومت نے گذشتہ برس ہیپاٹائٹس سے متاثرہ کروڑوں افراد کی اسکریننگ اور لاکھوں کے علاج کا عزم ظاہر کیا تھا۔ شہباز شریف حکومت نے پینتیس ارب کے فنڈز مختص کیے۔ ہمیں بلا کر بریفننگ دی گئی کہ 2030 تک پاکستان ہیپاٹائٹس سے مکمل نجات حاصل کر لے گا۔ مگر عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہو سکا۔ڈاکٹر فاطمہ کہتی ہیں، ”پاکستان دنیا میں ہیپاٹائٹس سی اور بی کے سستے ترین علاج والے سر فہرست ممالک میں شامل ہے۔ مثلاً ہیپاٹائٹس سی کا بارہ ماہ پر مشتمل کورس تقریباً دس ہزار میں پڑتا ہے۔ مگر

بھارت میں انتخابی دنگل لڑنے والے کھلاڑی اور اداکار کون؟

عوام کو آگاہی نہ ہو تو اس کا کیا فائدہ؟

Related Articles

Back to top button