قیدی نمبر804فوج سے مذاکرات کیلئے مائنس ون کا فارمولا لے آیا

سینئر صحافی اور اینکر پرسن عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ عمران خان عوام کی طاقت سے زیادہ مقتدرہ کی طاقت تسلیم کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ عوامی طاقت سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کارگر ہے اور ان کے بغیر اقتدار تو کیا سیاست بھی ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بضد ہیں کہ مذاکرات صرف اسٹیبلشمنٹ سے ہوں گے مگر نہ جانے عمران خان اب بھی کس ’عہد‘ کے پابند ہیں کہ فوج کے سربراہ کو الگ کر کے چند شخصیات سے بات کرنا چاہتے ہیں۔

تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے چیف آف آرمی سٹاف کی بجائے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا مطالبہ کرنے پر عاصمہ شیرازی اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سوال اٹھاتی ہیں کہ آرمی چیف نہیں تو فوج میں اور کون ہے جس پر عمران خان بھروسہ کر سکتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ وہ فوج کی قیادت کو الگ کر کے مذاکرات کی بات آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ عاصمہ شیرازی کے مطابق عمران خان بہت سوچے سمجھے انداز میں ’مائنس ون‘ فارمولے پر عمل کر رہے ہیں تاکہ ان کے بیانیے میں ذاتی عناد کا عنصر بھی رہے اور اسٹیبلشمنٹ مخالف تاثر بھی قائم رہے۔

 عاصمہ شیرازی کے مطابق عمران خان میاں نواز شریف کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں کہ جنہوں نے جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو نشانہ بنا کر سیاسی اہداف حاصل کیے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان بھی یہ اہداف حاصل کر پائیں گے؟ عاصمہ شیرازی کا مزید کہنا ہے کہ مشرف کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد ادارے نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب براہ راست کسی قسم کی سیاست اور اقتدار میں آنے کا راستہ اختیار نہیں کرنا، یوں بھی تخت کے پائے جن ہاتھوں میں ہوں انہیں سواری کی کیا ضرورت ہوتی ہے۔ عاصمہ شیرازی کے مطابق اب ہائبرڈ نظام کا تسلسل ہے اور دیوار سے لگی مقتدرہ کے گلے پر ہاتھ پڑا تو اس نے بھی گلے پر ہاتھ ڈالنا شروع کر دیا۔ نو مئی سے قبل اسٹیبلشمنٹ کا رویہ یہ تھا کہ وہ سیاست میں عدم مداخلت پر راضی نظر آتے تھے اور نو مئی کے بعد کی مقتدرہ سیاست میں مداخلت حق سمجھ رہی ہے۔ عاصمہ شیرازی کا مزید کہنا ہے کہ اس بحث میں الجھے بغیر کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے اور اس میں عمران خان کتنے قصوروار ہیں، سوال یہ ہے کہ سیاسی خلا کیوں پیدا ہوا اور سیاست کو کیا نقصان پہنچا۔اداروں میں خلیج وسیع ہوئی، سیاست تاراج اور ریاست منقسم۔ گروپ بندی اور اداروں میں سیاسی تقسیم نے خلا کو مزید وسیع کر دیا۔ عاصمہ شیرازی کے بقول عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین مذاکرات کے حوالے سے مختلف تجاویز کے برعکس مقتدرہ سے وابستہ سابقین کی اکثریت اسی ’تبدیلی‘ کی خواہاں ہے جس پراجیکٹ کا وہ خود حصہ رہے ہیں۔دہائی سے زائد عرصے کی لگن، وابستگی اور عہد نے پراجیکٹ عمران کے لیے جو یقین پیدا کیا ہے اس کی منزل دو تہائی اکثریت، صدارتی نظام اور فرد واحد کی حکومت ہے۔ستم ظریفی تو یہ ہوئی کہ ہارڈ ڈسک کے کل پرزے ڈیلیور نہ کر سکے۔ مقتدرہ یہ المیہ ماضی میں بھگت چکی تھی سوائے اس کے کہ اب کی بار سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں ڈال دیے گئے۔ ادارے کی جانب سے یوٹرن کی صورت کوئی بیک اپ پلان موجود نہ تھا، لہٰذا پرانے سیاست دانوں پر ہی گزارا کرنا پڑا۔ عاصمہ شیرازی کے مطابق اب سوشل میڈیا اور سیاسی میدان میں لڑتا اور اپنے اختیار کو مضبوط کرنے کی لگن میں ادارہ نئے اقدامات کی جانب بڑھ رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے لیے نئے قوانین تجویز کیے جا رہے ہیں مگر بوتل سے نکالے جانے والے جن واپس بوتل میں کیسے جائیں گے، یہ محاذ بھی آخری حد تک گرم رہے گا۔

عاصمہ شیرازی کے بقول نو مئی قریب ہے، نہ جانے یہ سالگرہ کس طرح منائی جائے گی؟ عمران خان جیل میں ہیں اور مذاکرات میں ناکامی کی صورت برطانوی اخبارات میں بظاہر مصنوعی ذہانت کے ذریعے آرمی چیف کو ہدف بنا رہے ہیں جبکہ عمران خان سیاسی جماعتوں سے بات چیت کے لیے تیار نہیں۔ دوسری جانب عدلیہ کے محاذ پر گروہ بندی میز پر بچھی شطرنج کی بساط پر اپنی چال کی منتظر ہے جبکہ مقتدرہ اور انتظامیہ اپنے بادشاہ کو مضبوط کر رہے ہیں۔

عاصمہ شیرازی کے مطابق اقتدار کی غلام گردشوں کے کئی ایک کھلاڑی اپنے اپنے محاذ پر کھڑے ہو رہے ہیں۔ ایسے میں کون کس کا پیادہ ہے کون کس کے کام آئے گا اور اس کھیل کا پانسہ پلٹے گا یہ کھیل کے آخرتک سمجھ میں نہیں آ پائے گا۔ کیونکہ یہ کھیل اقتدار کا نہیں اختیار کا ہے۔

Related Articles

Back to top button