آمروں سے ٹکرانے والی بے نظیر بھٹو شہید کی زندگی کی داستان

محترمہ بینظیر بھٹو شہید پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ناقابلِ فراموش باب ہیں۔ بینظیر کو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی ایسے امتیازات حاصل ہیں جو کسی اور کے حصے میں نہ آسکے۔ بینظیر اپنے نام کی طرح بینظیر تھیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں جتنے مشکل چیلنجز کا سامنا کیا وہ بھی ان کا خاصہ تھا حتیٰ کہ جمہوری اصولوں کی پاسداری کرتے کرتے انہوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔

بینظیر بھٹو برطانیہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جون 1977 میں اس ارادے سے وطن واپس آئیں کہ وہ ملک کے خارجہ امور میں خدمات سر انجام دیں گی لیکن ان کے پاکستان پہنچنے کے دو ہفتے بعد فوجی جنتا نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ فوجی آمر جنرل ضیاءالحق نے ذوالفقارعلی بھٹو کو جیل بھجوا کر ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا اور ساتھ ہی بینظیر بھٹو کو بھی گھر کے اندر نظر بند کر دیا گیا۔ اپریل 1979ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک جھوٹے کیس میں پھانسی کی سزا سنا دی۔ بینظیر بھٹو اپنے عظیم باپ کے ساتھ آخری ملاقات کو یاد کرکے زندگی بھر اشکبار رہیں کیونکہ انہیں آخری بار اپنے محبوب والد سے گلے بھی نہیں ملنے دیا گیا۔ تاہم بھٹو شہید کے جوڈیشل مرڈر کے بعد بینظیربھٹو نے جس اندز سے عوامی سیاست کا مشن آگے بڑھایا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔بلا شک و شبہ دختر مشرق بینظیر بھٹو ایک خالصتاً جمہوری ذہن رکھنے والی سیاسی رہنما تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے عظیم والد ذوالفقار علی بھٹو شہید کے طرز سیاست کو انتہائی قریب سے دیکھا ،انہیں جمہوریت اور جمہور کی طاقت پر کامل یقین تھا۔ بینظیر کی قائدانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے شہید بھٹو انہیں اپنی زندگی ہی میں اپنا سیاسی جانشین قرار دے چکے تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلزپارٹی اور بھٹو خاندان پر جو دورِ ابتلا آئے، وہ بینظیر بھٹو ہی تھیں،جنہوں نے بھٹو کی سیاسی وارث ہونے کا حق نبھایا اور اپنی والدہ نصرت بھٹو کے ہمراہ ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو دباؤ میں رکھنے کیلئے مختلف ادوار میں ان کے شوہر آصف علی زرداری کو جھوٹے مقدمات میں ساڑھے گیارہ برس قید میں رکھا گیا مگر بھٹو کی بیٹی کے پایہ استقلال میں لغزش نہ آئی۔ گویا بینظیر بھٹو زندگی کے ہر مشکل ترین مرحلے پر بہت باہمت، نڈر، پُراعتماد اور مسائل سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت سے مالامال شخصیت تھیں، اس لئے اگر انہیں تیسری بار ملک کی وزیراعظم بننے کا موقع ملتا تو پاکستان کے حالات وہ نہ ہوتے ،جن میں ہم آج گھرے ہوئے ہیں۔ بھرپور عوامی اصرار پر عملی سیاست میں حصہ لینے کے لیے 33 سالہ بینطیر بھٹو 1986ءمیں جلاوطنی کے بعد پہلی بار لاہور آئیں تو بھٹو کی بیٹی کا ایسا فقید المثال استقبال ہوا کہ آج تک اس کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایسے بڑے مجمعے کو دیکھ کر ہمیشہ اسلام آباد کے تخت کو الٹانے کی بات کی جاتی ہے مگر جمہوریت کی مشعل برادر بے نظیر بھٹو نے ایسا سوچا بھی نہیں۔ دختر مشرق نے عوام کے جم غفیر کو دیکھ کر بڑے تحمل سے کہا کہ وہ ملک میں جمہوریت بحال کرائیں گی اور عوامی مینڈیٹ کی طاقت سے ہی اقتدار میں آئیں گی۔ بینظیر نے اس بھرپور عوامی انداز میں انتخابی مہم چلائی کہ کوئی بھی ان کی سیاسی بلوغت کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔

اپوزیشن اتحاد نے انہیں اقتدار سے باہر رکھنے کے لئے ہر تدبیر اپنائی، ایجنسیوں نے بینظیر کا راستہ روکنے کے لئے نو جماعتوں پر مشتمل اسلامی جمہوری اتحاد بھی بنوایا لیکن عوام نے بھٹو کی بیٹی کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور پھر اقتدار کے سنگھاسن تک بھی پہنچادیا۔ تمام تر سازشوں کا مقابلہ کرنے کے بعد اپنے والد کی پنکی بینظیر بھٹو جب 1988 میں محض 35 برس کی عمر میں اسلامی دنیا اور پاکستان کی پہلی وزیراعظم منتخب ہوئیں تو ان کے سامنے مزید بڑے بڑے چیلنجزموجود تھے۔ 1989ء میں بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی جو بری طرح ناکام رہی۔ اس دور میں بلاشبہ بینظیر نے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن سیاسی ریشہ دوانیوں کے باعث محض 20 ماہ بعد صدر غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو حکومت کو گھر بھجوادیا۔ ملک میں ایک مرتبہ پھر سوچی سمجھی سازش کے طور پر جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی جس سے ایک بے یقینی کی فضا ضرور پیدا ہوئی مگر بے نظیر بھٹو کے تجربات میں ایک اور گراں قدر تجربے کا اضافہ ہوگیا۔

اس کے بعد نواز شریف حکومت نے بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف زرداری پر مقدمات قائم کرکے انہیں جیل میں ڈال دیا اور محترمہ چھوٹے سے بلاول کو گود میں اٹھائے عدالتوں کی پیشیاں بھگتتی اور جیل کے چکر کاٹتی رہیں مگر وہ ثابت قدم رہیں۔پھر وہ دور بھی آیا،جب نوازشریف وزیراعظم بنے اور محترمہ کو اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس تجربے نے بھی ان کے اندر مزید قائدانہ صفات پیدا کیں۔ بینظیر نے ڈٹ کر نواز شریف حکومت کا مقابلہ کیا لیکن پھر ایسے حالات پیدا ہوئے کہ صدر غلام اسحاق نے ایک بار پھر منتخب حکومت کو گھر بھجوادیا لیکن اب کی بار گھر بھجوائے جانیوالی بینظیربھٹو نہیں تھیں بلکہ میاں نواز شریف تھے، کہا جاتا ہے کہ نواز شریف بہت جلد مکافات عمل کا شکار ہوئے۔ اس کے بعد بینظیر بھٹو نے ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لئے جدوجہد مزید تیز کردی۔ ایک بار پھر الیکشن کا موسم آیا، بینظیر کو پھر سازشی عناصر کا سامنا تھا، اکتوبر، 1993ء میں عام انتخابات ہوئے، پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں معمولی اکثریت سے کامیاب ہوئیں اور یوں بینظیر ایک مرتبہ پھر وزیرِاعظم بن گئیں، اس دور میں بھی بینظیر کو کئی سیاسی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ ن لیگ کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی عوامی جمہوری حکومت کے خلاف ٹرین مارچ سمیت بہت سے ارینجڈ مظاہرے کرائے گئے۔ اسی دور میں پولیس کے ہاتھوں وزیراعظم شہید بینظیر بھٹو کے بھائی اور سندھ اسمبلی کے منتخب رکن میر مرتضیٰ بھٹو کو ان کے گھر کے چند فاصلے پر شہید کر دیا گیا اور تقریباً ایک ماہ بعد پھر اسی طریقہ سے صدارتی اختیارات کی تلوار استعمال کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی حکومت کو چلتا کر دیا گیا۔

کپتان جیل میں گرمی سے پریشان، رہائی کےلیے منتیں اور ترلے

 

1997میں نواز شریف دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تو بینظیر کچھ عرصے بعد بیرون ملک منتقل ہوگئیں۔نواز دور میں بینظیر اور ان کے ساتھیوں پر مزید مقدمات بنائے گئے۔ پھر 12 اکتوبر 1999 کو آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو اقتدار سے باہر کرکے ملک پر ایک بار پھر مارشل لاء مسلط کردیا۔ مشرف نے اپنے حواریوں کے ساتھ مل کر نہ صرف شریف خاندان بلکہ بینظیر بھٹو کے خلاف بھی احتساب کے نام پر کئی مقدمات قائم کئے۔ اس دوران بینظیر نےلندن میں نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت سائن کیا تاکہ مل کر فوجی آمر جنرل مشرف کا مقابلہ کیا جائے۔

بینظیر بھٹو کا دوسرا سیاسی جنم 2007میں ہوا۔ جب ساڑھے آٹھ سال کی جلاوطنی ختم کر کے بینظیر بھٹو 18 اکتوبر2007 کو وطن واپس آئیں تو ان کا کراچی ائیرپورٹ پر فقید المثال استقبال کیا گیا۔ بے نظیر کا کارواں شاہراہِ فیصل پر مزارِ قائد کی جانب بڑھ رہا تھا کہ اچانک زور دار دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں 150 افراد موت کی نیند سو گئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ قیامت صغریٰ کے اس منظر کے دوران بینظیر کو بحفاظت بلاول ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ پھر جب بی بی اپنے بچوں سے ملنے دوبارہ دبئی گئیں تو 3 نومبر کو صدر جنرل پرویز مشرف نے ماورائے آئین قدم اٹھاتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کر دی۔ یہ خبر سنتے ہی بینظیر دبئی سے واپس وطن لوٹ آئیں۔ انہوں نے ایمرجنسی کے خاتمے، ٹی وی چینلز سے پابندی ہٹانے اور سپریم کورٹ کے ججز کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ اس وقت تک ملک میں نگران حکومت بن چکی تھی اور مختلف سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لینے کے معاملے میں کشمکش کا شکار نظر آ رہی تھیں۔ اس صورت میں پیپلز پارٹی نے میدان خالی نہ چھوڑنے کی حکمت عملی کے تحت تمام حلقوں میں امیدوار کھڑے کیے۔ اگرچہ پاکستان آمد پر سانحہِ کار ساز کے ذریعے بینظیر کو پیغام دے دیا گیا تھا کہ ان کا راستہ روکنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کسی بھی حد تک جاسکتی ہے لیکن انہوں نے خود کو محدود نہیں کیابلکہ عوام کے درمیان رہیں۔ یہ حقیقت اس امر کی غماز ہے کہ محترمہ بینظیربھٹو زندگی کے آخری دنوں میں کس قدر مضبوط ارادے اور حوصلے کی مالک تھیں۔ کسی بھی بڑے لیڈر کے یہی بنیادی اوصاف ہوتے ہیں۔

یہی جرات مندی اور حوصلہ تھا جو 27 دسمبر 2007 کو انہیں اپنے مقتل لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسے میں لے گیا۔ بینظیر بھٹو نے وہاں جس عوامی انداز میں خطاب کیا، اس کا آج کل تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے خطاب کے بعد جب بینظیر بھٹو پارٹی کارکنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے گاڑی کی چھت سے باہر نکل رہی تھیں تو ایک نامعلوم شخص نے ان پر فائرنگ کر دی۔ اس کے بعد بینظیر کی گاڑی سے کچھ فاصلے پر ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا ۔ اس دھماکے میں بینظیر بھٹو کی گاڑی کو بھی شدید نقصان پہنچا لیکن گاڑی کا ڈرائیور اسی حالت میں گاڑی کو بھگا کر راولپنڈی جنرل ہسپتال لے گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بینظیر کا سیاسی سفر بلاول بھٹو کی صورت آج بھی جاری ہے اور ہاریوں، کسانوں اور مزدوروں کے حق کے لئے لڑنے والی بھٹو کی بیٹی آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہیں۔

Back to top button