پی ٹی ائی دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کی مخالف کیوں ہے؟

پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے دہشتگردوں اور ملک دشمن عناصر کیخلاف عزم استحکام کے نام سے منظور کردہ فوجی آپریشن کیخلاف کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ جہاں ایک طرف حکومتی ذمہ داران اس فوجی آپریشن کو ملکی استحکام کیلئے ناگزیر قرار دے رہے ہیں وہیں دوسری جانب پی ٹی آئی کی طرف سے عزم استحکام آپریشن بارے خدشات،تحفظات اور اعتراضات کا سلسلہ جاری ہے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کو خطرہ لاحق ہے کہ عزم استحکام آپریشن میں انسداد دہشتگردی کے نام پر تحریک انصاف اور دوسرے مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جائیگا اور 9مئی کے واقعات کے حوالے سے اسیروں کو طویل سزائیں سنائی جائیں گی پی ٹی آئی ارکان سمجھتے ہیں کہ سیاسی طور پر کمزور اور اختیارات کے حوالے سے لاغر اور بے بس حکومت اداروں کی طاقت سے ملک میں طویل المدتی حکومت کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے جس کیلئے طاقت کیساتھ ساتھ مشاورت اور ہدایات کے انداز میں احکامات بھی مل رہے ہیں اور وہ ان پر عمل کر رہی ہے۔ تحریک انصاف نے اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں انسداد دہشتگردی کے آپریشن عزم استحکام کی منظوری کےفیصلے پر عدم اعتماد اور تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ آپریشن سے متعلق ایوان کو اعتماد میں لیا جائے اور جس طرح ماضی میں عسکری قیادت کی جانب سے بعض اہم امور پر قومی اسمبلی اور سینٹ کے ارکان کو ان کیمرہ بریفنگ دی جاتی رہی ہے اسی طرح عزم استحکام آپریشن کے بارے میں بھی تفصیلات بتائی جائیں۔ پی ٹی آئی کے مطالبے پر وفاقی حکومت نے عزم استحکام آپریشن پر ایوان میں قومی سلامتی کمیٹی کا ان کیمرا اجلاس بلانے کا اعلان کر دیا ہے۔

خیال رہے کہ  نیشنل ایکشن پلان کی مرکزی ایپکس کمیٹی نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے نئی عسکری مہم ‘عزم استحکام’ شروع کرنے کے منظوری دی تھی۔ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے نئے فوجی آپریشن کی منظوری دیتے ہوئے افغانستان کی عبوری طالبان حکومت پر وہاں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان ٹی ٹی پی کے دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ بڑھانے کی غرض سے نئی ٹھوس سفارتی کوششیں شروع کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ دہشت گردوں کے خلاف اس نئے فوجی آپریشن کے دو پہلو ہیں، پہلا اندرونی سیکیورٹی کی صورت حال جبکہ دوسرا پہلو بیرونی خطرات کا تدارک کرنا ہے جس کا براہ راست تعلق افغانستان سے ہے۔نئے آپریشن کے تحت خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی ہوگی جو انسداد دہشت گردی مہم کا حصہ ہے اور نئی سفارتی کوشش شروع کی جائے گی تاکہ ہمسایہ ممالک سے درپیش خطرات کو ختم کیا جائے۔ذرائع نے بتایا کہ نئے منصوبے کے مطابق پاکستان ایک مرتبہ پھر افغان حکومت سے رابطہ کرے گا اور انہیں دہشت گرد عناصر کے خاتمے کے لیے کیا گیا اپنا وعدہ پورا کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ پاکستان اس حوالے سے چین کی مدد بھی لے گا کہ وہ افغان طالبان کو کالعدم ٹی ٹی پی سے متعلق اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنے کے لیے قائل کرےکیونکہ چین کے طالبان کے ساتھ تعلقات بظاہر پاکستان کے مقابلے میں بہتر ہیں اور ان کے طالبان کے ساتھ تاریخی تعلقات ہیں تاہم حکومت میں آنے کے بعد طالبان اور پاکستان کے درمیان تعلقات خراب سے خراب تر ہوگئے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کی سیکیورٹی پر چین کے اسٹیکس ہیں جبکہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات سے ان کی سرمایہ کاری سست ہوچکی ہے۔چین کے ایک اہم وزیر نے حال ہی میں دورہ پاکستان کے موقع پر چینی باشندوں پر ہونے والے حملوں سے خبردار کیا تھا کہ اس سے چینی سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہو رہا ہے۔چینی وزیر نے مستقبل میں سرمایہ کاری کو پاکستان میں سیکیورٹی کی بہتری اور میں کاروباری ماحول سے جوڑ دیا تھا۔ایک روز بعد ہی ملک کی سول اور عسکری قیادت نے دہشت گرد گروپس کے خلاف فوجی آپریشن کی منظوری دے دی تھی۔چین کے سیکیورٹی کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خدشات بنیادی وجہ تھے جس سے پاکستان انسداد دہشت گردی مہم شروع کرنے پر مجبور ہوا۔پاکستان کا ماننا ہے کہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی اصل وجہ سرحد پار موجود کالعدم ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں سے جڑی ہوئی ہے۔

Back to top button