پی ٹی آئی میں ذاتی اختلافات عروج پر، پارٹی میں بغاوت کا خدشہ

 پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات میں ایک بار پھر شدت آگئی ہے۔ جہاں ایک طرف کارکنان نے اپنے ایم پی ایز اور ایم این ایز کو عمران خان کی رہائی کیلئے کوششیں نہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف سوشل میڈ یا پر مہم چلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔وہیں دوسری جانب پارٹی رہنما عہدے اور مراعات سمیٹنے کے چکر میں ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے نظر آتی ہے۔

روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق پارٹی کے اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کے جیل میں ہونے کی وجہ سے انہیں باہر کے حالات اور پارٹی کے حوالے سے صحیح آگاہ نہیں کیا جارہا۔ جس کی وجہ سے پارٹی کے پرانے رہنماؤں میں اشتعال غصہ پایا جاتا ہے۔ قوی امکان ہے کہ پارٹی کے بعض ایم این ایز کچھ عرصہ بعد اسمبلی سے استعفیٰ دے دیں گے۔ ذرائع کے مطابق پارٹی سے مخلص رہنماؤں کو سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے اور پارٹی پر وکلا کا کنٹرول مضبوط ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے شہریار آفریدی، شاندانہ گلزار، شیر افضل مردت علی محمد خان، اسد قیصر، زرتاج گل ، مراد سعید اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور سمیت اہم رہنماؤں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ تاہم دوسری جانب پی ٹی آئی ورکرز کا کہنا ہے کہ عمران خان کی رہائی کیلئے وکلا نے جو وعدے کیے تھے اور جو کچھ بتایا تھا۔ اس پر 5 فیصد بھی عمل نہیں ہو سکا۔ جن وکلا کو پارٹی میں عہدے دیئے گئے۔ انہیں کوئی نہیں جانتا تھا لیکن پی ٹی آئی میں عہدے ملنے کے بعد نہ صرف ان کے کلائنٹس میں اضافہ ہوا اور وہ کروڑوں میں کھیل رہے ہیں۔ بلکہ عمران خان کی وجہ سے وہ ٹی وی شوز میں بھی نظر آرہے ہیں۔ ذرائع کے بقول تین ایسے وکیل بھائی ہیں۔ جن کے پاس کام نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اب ان کے پاس پارٹی رہنماؤں کیلئے وقت نہیں اور تینوں ٹی وی شوز میں شرکت کر رہے ہیں۔ جبکہ پارٹی کیلئے ان کا کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ پہلے ان وکلا بھائیوں نے کارکنوں کے کیسز کی مفت میں پیروی کر کے عمران خان کا قرب حاصل کیا اور اب کارکنوں کے کیسوں کے بارے میں فیس مانگی جارہی ہے ۔ پارٹی کے اندران کی کار کردگی پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سابق وزیر قانون بابر اعوان بھی صرف شریف خاندان کے خلاف بیانات پر اکتفا کر رہے ہیں۔ جبکہ پی پی پی قیادت کے خلاف وہ خاموش ہیں۔ پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کے مطابق بابر اعوان شریف فیملی کیخلاف اپنے پرانے حساب برابر کر رہے ہیں

عمران خان کو جتنی دیر جیل میں رکھا جا سکتا ہے رکھا جائے: رانا ثنا اللہ

ذرائع کے مطابق عمران خان کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ ڈیل کر کے اپنی نا اہلی ختم کرائیں اور قومی اسمبلی یا سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لیں ۔ جس کے بعد ان کی نقل و حرکت میں آسانی ہوگی ۔ ان کو گرفتار کرنے کیلئے چیئر مین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی سے اجازت لینا ضروری ہے۔ عمران خان کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ ان کی پارٹی کے کارکنان مایوس ہو گئے ہیں اور پارٹی اختلافات کا شکار ہے۔ پارٹی میں کئی گروپ بن گئے ہیں۔ پرویز الہی نے رہائی کے بعد خاموشی اختیار کرلی ہے۔ جبکہ پارٹی کے موجودہ رہنما ان پر بھروسہ کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ بعض ذرائع کے مطابق پرویز الہی کا خاموش رہنا ان کی مجبوری ہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کو بتایا گیا ہے کہ اگروہ جیل میں زیادہ عرصہ رہے تو پارٹی ختم ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے اپنے وکیل علی ظفر کے توسط سے اپنی نا اہلی ختم کرانے اور انتخابات میں حصہ لینے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق شہر یار آفریدی کی جانب سے قومی اسمبلی میں یہ کہنا کہ شاید یہ ان کا آخری خطاب ہو، ان کے اس بیان  نے پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں کو بے چین کر دیا ہے۔ کیونکہ شہر یار آفریدی کی جانب سے عمران خان کی عدم رہائی کی صورت میں قومی اسمبلی سے استعفی دیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں ایک درجن سے زیادہ استعفے آسکتے ہیں جبکہ ذرائع کے مطابق پارٹی کےموجودہ چیئر مین بیرسٹر گو ہر اور جنرل سیکر یٹری عمر ایوب کے خلاف پارٹی میں بغاوت بھی ہوسکتی ہے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی رہنماؤں کے آپسی اختلافات میں بھی شدت آ چکی ہے۔ پارٹی رہنماؤں کے مابین اختلافات کی ایک جھلک 24 جون کے روز اس وقت دیکھنے میں آئی جب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا عزم استحکام آپریشن بارے اراکین اسمبلی کو بریفنگ دینے کے پی کے ہاؤس اسلام آبد پہنچے۔اجلاس میں ارکان پارلیمنٹ فوجی آپریشن کی کھل کر مخالفت نہ کرنے پر وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور پر پھٹ پڑے۔

ذرائع کے مطابق علی امین گنڈا پور نے ارکان اسمبلی کو بتایا کہ ایپکس کمیٹی میں فوجی آپریشن کا ذکر نہیں کیا گیا، صرف استحکام پاکستان اور سیکیورٹی مسائل سے متعلق بات چیت ہوئی ہے علی امین گنڈا پور کا موقف تھا کہ آپریشن کی تفصیلات سامنے آنے کا انتظار کرنا چاہیے، اس سے پہلے آپریشن کی مخالفت کرنا درست نہیں ہوگا۔ علی امین گنڈاپور نے 35 منٹ تک ارکان کو بریفنگ دی تاہم اکثریتی ارکان علی امین گنڈاپور سے متفق نہ تھے اور انہوں نے ملک کے کسی حصے میں بھی فوجی آپریشن کی کھل کر مخالفت کرنے پر زور دیا۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں علی امین گنڈاپور سے جب کھل کر مخالفت نہ کرنے کی وجوہات پوچھی گئیں تو انہوں نے کہا کہ اس سے یہ تاثر جائے گا کہ پی ٹی آئی طالبان کو سپورٹ کرنے والی جماعت ہے اور ہم دہشتگردوں کو تحفظ دے رہے ہیں، اس سے ہمارے خلاف غدار قرار دیے جانے کا ایک نیا بیانیہ بھی بنانے میں مدد ملے گی۔ایک رکن نے بتایا کہ علی امین گنڈاپور کی یہ وضاحت سن کر اجلاس کا ماحول سازگار نہ رہا اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور پر کھل کر تقنید کی گئی۔ذرائع کے مطابق ایک رکن نے کہاکہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آپریشن شروع ہونے کے بعد کسی کی جان محفوظ رہے گی تو وہ غلط فہمی دور کرلے۔

ذرائع کے مطابق اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی عمر ایوب، چئیرمین بیرسٹر گوہر، اسد قیصر اور شاندانہ گلزار اور کئی دیگر سینیئر رہنماؤں نے فوجی آپریشن کی مخالفت کی جبکہ سینیٹر شبلی فراز اور بیرسٹر سیف نے علی امین گنڈاپور کا موقف اپنایا اور کہاکہ فوجی آپریشن کی تفصیلات سامنے آنے کا انتظار کیا جائے۔ذرائع کے مطابق ایک رکن نے کہاکہ عمران خان فوجی آپریشن کی ہمیشہ سے واضح مخالفت کرتے آئے ہیں، اس لیے ہم اپنے لیڈر کے موقف کے ساتھ کھڑے ہیں۔

Back to top button