نواز شریف دور کے پاور پلانٹس پاکستان کو کیسے کنگال کریں گے؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے دور حکومت میں مہنگی ترین بجلی پیدا کرنے کے لیے لگائے جانے والے پاور پلانٹس سے جان چھڑائیں ورنہ یہ پلانٹس آنے والے دنوں میں پاکستان کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی ثابت ہوں گے اور ہم ملک گروی رکھ کر ادائیگی کریں گے۔

اپنی تازہ تحریر میں جاوید کہتے ہیں کہ مجھے 2008 اور 2013 دونوں ادوار یاد ہیں۔ 2008 میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی‘ گرمیوں میں پورا ملک بند ہو کر رہ جاتا تھا‘ پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتی تھی اور راجہ پرویز اشرف پانی اور بجلی کے وزیر تھے‘ راجہ صاحب نے فوری طور پر رینٹل پاور پلانٹس کا بندوبست کیا‘ پلانٹس بحری جہازوں میں نصب تھے‘ وہ کراچی کے ساحل پر کھڑے ہو گئے‘ فرنس آئل سے بجلی بناتے تھے اور یہ بجلی نیشنل گرڈ کو فراہم کر دی جاتی تھی۔ بجلی ظاہر ہے مہنگی تھی چناں چہ نواز شریف اور عمران خان کی زیر قیادت اپوزیشن جماعتوں نے شور مچا دیا۔ خواجہ آصف اس زمانے میں راجہ پرویز اشرف کو راجہ رینٹل کہتے تھے‘ رینٹل پلانٹس کے باوجود بجلی پوری نہ ہو سکی اور لوڈ شیڈنگ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو کھا گئی۔

جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ وہ الیکشن ن لیگ نے لوڈ شیڈنگ کے خلاف لڑا تھا چناں چہ نواز شریف حکومت آئی اور اس نے دھڑا دھڑ بجلی کے کارخانے لگوانا شروع کر دیے‘ وقت کم تھا اور مقابلہ سخت اور اس خوف ناک کمبی نیشن میں حکومت کے پاس صرف ایک ہی آپشن تھا‘ یہ پاور پلانٹس لگاتی اور اس نے یہ لگا دیے اور یوں بجلی پوری ہو گئی مگر اس کی قیمت میں اضافہ ہو گیا۔ جاوید کے مطابق دنیا میں آپ کے پاس دو ہی آپشن ہوتے ہیں‘ آپ کو اگر کوئی چیز چاہیے تو پھر آپ کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی اور اگر آپ قیمت ادا نہیں کر سکتے تو پھر آپ کو چیز نہیں مل سکتی‘ عوام کے پاس بھی اس دور میں دو آپشن تھے‘ یہ دس سال اندھیروں میں رہیں اور حکومت اس دوران پانی اور مقامی کوئلے کے پلانٹس لگا کر مانگ پوری کر دے‘ وہ بجلی یقینا سستی ہوتی لیکن اس کے لیے صبر چاہیے تھا اور ہماری قوم اس نعمت سے محروم ہے اور دوسرا آپشن تھا حکومت پاور پلانٹس لگائے اور ہمیں فوری طور پر بجلی مل جائے

پنجاب کابینہ نے سکھ میرج ایکٹ کی منظوری دے دی

لیکن ظاہر ہے وہ بجلی مہنگی ہونی تھی اور یہ ہوا۔ نون لیگی حکومت نے مہنگے ترین پاور پلانٹس لگائے اور بجلی مہنگی ہو گئی۔ اس افراتفری میں حکومت نے تین غلطیاں کیں‘ ایک‘ غیر ملکی پاور کمپنیوں سے یہ معاہدے کر لیے کہ ہم آپ سے بجلی خریدیں یا نہ خریدیں مگر ہم آپ کی کیپسٹی کے مطابق آپ کو رقم دیتے رہیں گے‘ ہم اگر سادہ الفاظ میں اس کی تشریح کریں تو یہ اس طرح ہو گی‘ ہم نے کسی سے کرائے پر آم کا درخت لگوا لیا اور یہ معاہدہ کر لیا اس درخت پر دس من آم لگیں گے اب اگر اس درخت پر دس من سے کم آم لگتے ہیں یا میں صرف دو یا تین من آم اتارتا ہوں تو بھی مجھے ہر سال دس من کی رقم ادا کرنا پڑے گی۔

جاوید کے مطابق کمپنیوں نے اس رقم کو کیپسٹی پے منٹ کا نام دے دیا‘ دوسرا ہم نے ادائیگی ڈالرز میں طے کر لی‘ اب اگر روپیہ کم زور اور ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو ادائیگی کی رقم بھی بڑھ جاتی ہے اور تیسرا یہ پلانٹس درآمدی آئل‘ گیس اور کوئلے پر لگا دیے گئے چناں چہ ہمیں اب کوئلہ‘ گیس اور تیل کے لیے بھی ڈالرز چاہییں اور بجلی کی ادائیگی بھی ڈالرز میں کرنی پڑ رہی ہے اور ہم بجلی خریدیں یا نہ خریدیں مگر ہمیں کیپسٹی پے منٹ بھی کرنا پڑتی ہے اور اگر ہم اس کے ساتھ لائین لاسز‘ بجلی کی چوری اور آزاد کشمیر‘ فاٹا اور بلوچستان کی سبسڈی کو بھی شامل کر لیں تو بجلی پورے ملک کو ڈبونے کے لیے کافی ہو چکی ہے۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ اب اگر میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار سے اس بارے پوچھا جائے تو یہ جواب دیتے ہیں اس زمانے میں کوئی بھی غیر ملکی کمپنی اس سے کم پر پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں تھی‘ ہم اگر ان کی شرائط نہ مانتے تو ہم آج بھی لوڈ شیڈنگ میں زندگی گزار رہے ہوتے۔ آپ اب عوام کی حالت بھی دیکھ لیں‘ پاکستان تیسری دنیا میں سب سے زیادہ اے سی‘ ٹیلی ویژن‘ اسمارٹ فونز‘ پنکھے اور موٹریں استعمال کرنے والا ملک ہے‘ ہمارے پنکھے اور بلب بھی بجلی ضایع کرنے کی خوف ناک مشینیں ہیں‘ہمارا ایک پنکھا یورپ کے دس پنکھوں کے برابر بجلی استعمال کرتا ہے‘ ہم آج تک ملک سے بلب بھی ختم نہیں کر سکے‘ ہم اسمارٹ پنکھے بھی نہیں بنا سکے اور ہم نے لوگوں کو گرمیوں میں ٹھنڈے رہنے والے گھر بھی بنانے کی ٹریننگ نہیں دی۔

لہٰذا آج صورت حال یہ ہے درجہ حرارت 50 سینٹی گریڈ کو ٹچ کر رہا ہے‘ نوے فیصد عمارتیں گرمیوں میں تنور بن جاتی ہیں‘ موٹریں ‘ پنکھے اور بلب دس گنا زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں اور عوام میں بجلی کی بچت کا شعور بھی نہیں اور یہ لوگ بجلی کے بل دینے کے لیے بھی رضا مند نہیں ہیں‘ یہ فالتو بتیاں اور پنکھے بھی بند نہیں کرنا چاہتے لہٰذا پھر سوال یہ ہے ملک کیسے چلے گا۔ ایسے میں ہمارے پاس اب دو ہی آپشنز ہیں۔ ہم لوڈشیڈنگ میں رہیں یا پھر بجلی کی قیمت ادا کریں ‘ عوام یہ بھی یاد رکھیں قیمت ابھی مزید بڑھے گی‘ یہ دگنی ہو گی‘ بجلی فی یونٹ 100 روپے تک جائے گی چناں چہ پیٹی کس لیںں، اور اپنی آمدنی میں اضافہ کریں تاکہ آپ بجلی کے بھاری بل دینے کے قابل ہو سکیں۔

Back to top button