بجٹ منظوری کے بعد آپ کو اپنی تنخواہ پر کتنا ٹیکس دینا پڑے گا؟

قومی اسمبلی نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز کے مزید بوجھ پر اعتراضات کے باوجود مالی سال 25-2024 کے بجٹ کی منظوری دے دی ہے۔ جس کے بعد تنخواہ دار طبقے کو ریلیف کی فراہمی کی تمام امیدیں دم توڑ گئی ہیں اور حکومت نے پہلے سے مہنگائی کی چکی میں پسے تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس لاد دیا ہے۔

خیال رہے کہ 12 جون 2024 کو حکومت کی جانب سے بجٹ پیش کیے جانے کے بعد اس پر اپوزیشن کے علاوہ بزنس کمیونٹی اور تنخواہ دار طبقے کی جانب سے اعتراضات اٹھائے گئے تھےکہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح کو بڑھایا گیا ہے۔ تاہم تمام تر اعتراضات اور مطالبات کے باوجود حکومت کی جانب سے تنخواہ دار طبقے کو کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا گیا بلکہ منظور کردہ بجٹ میں  تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح وہی ہے جو قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کے بعد تجویز کیے گئے تھے۔‘ تاہم حکومت کی جانب سے بجٹ پاس کرتے وقت پیٹرول اور ڈیزل پر آئندہ مالی سال میں پٹرولیم لیوی کی شرح کو ساٹھ روپے فی لیٹر سے 80 روپے فی لیٹر تک بڑھانے کی تجویز دی گئی تھی تاہم منظور شدہ فنانس بل میں اس کی شرح 70 روپے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے جو آئندہ مالی سال میں پیٹرول و ڈیزل کے صارفین سے وصول کی جائے گی۔بجٹ میں ٹیکس کی وصولی کا ہدف بڑھایا گیا ہے جس میں براہ راست ٹیکسز پر 48 فیصد جبکہ بلاواسطہ ٹیسکز میں 35 فیصد اضافہ کیا گیا۔

قومی اسمبلی میں منظور کردہ فنانس بل کے مطابق یکم جولائی 2024 سے شروع ہونے والے مالی سال کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کیلئے کُل ٹیکس سلیب سات ہیں: آئندہ مالی سال کے دوران پانچ سلیبز کے ریٹس میں تبدیلی کی منظوری دی گئی ہے۔پہلے سلیب میں ایسے افراد شامل ہیں جن کی تنخواہ چھ لاکھ روپے سالانہ ہے اور ان پر کوئی انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔

دوسرا سلیب ایسے افراد کا ہے، جن کی سالانہ آمدن چھ لاکھ سے زیادہ مگر 12 لاکھ تک ہے۔ ایسے افراد کو چھ لاکھ سے زیادہ آمدن پر پانچ فیصد ٹیکس دینا ہو گا۔ جو رواں مالی سال میں ڈھائی فیصد تھا

تیسرا سلیب سالانہ 12 لاکھ سے 22 لاکھ کی آمدن والے افراد کے لیے ہے۔ ان کے لیے 30 ہزار فکسڈ ٹیکس ہو گا جبکہ اس کے علاوہ 12 لاکھ سے زائد کی آمدن پر 15 فیصد ٹیکس لگے گا۔ جو رواں مالی سال میں 15 ہزار فکسڈ اور 12 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 12.5 فیصد تھا

چوتھا سلیب ان افراد کے لیے ہے جن کی سالانہ تنخواہ 22 لاکھ سے زیادہ اور 32 لاکھ تک ہے۔ انھیں سالانہ ایک لاکھ 80 ہزار فکسڈ اور 22 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 25 فیصد کے حساب سے ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ جو رواں مالی سال میں ایک لاکھ 65 ہزار فکسڈ اور 24 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 22.5 فیصد تھا

پانچواں سلیب 32 لاکھ سے 41 لاکھ کی سالانہ آمدن والے افراد کے لیے ہے، جنھیں چار لاکھ 30 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 32 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 30 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ جو پہلے چار لاکھ 35 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 36 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 27.5 فیصد تھا)

چھٹا سلیب 41 لاکھ سے زائد آمدنی والے تنخواہ دار طبقے پر سات لاکھ فکسڈ انکم ٹیکس اور 41 لاکھ سے زائد آمدن پر 35 فیصد ٹیکس لاگو ہو گا۔ جو پہلے دس لاکھ 95 ہزار فکسڈ اور 60 لاکھ سے زائد آمدن پر 35 فیصد تھا)

ساتواں سلیب میں ایسے افراد یا ایسوسی ایشن آف پرسنز ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ یا آمدن ایک کروڑ یعنی بارہ کروڑ ماہانہ ہو۔ انھیں 45 فیصد نارمل ٹیکس کے علاوہ دس فیصد سر چارج بھی ادا کرنا پڑے گا۔

یعنی اگر آپ کی آمدن پچاس ہزار روپے ماہانہ ہے تو آپ کو کوئی انکم ٹیکس نہیں دینا ہو گا۔ تاہم اگر یہ آمدن 50 ہزار اور ایک لاکھ روپے ماہانہ کے درمیان ہے یعنی مثال کے طور پر80 ہزار ہے تو آپ کو ماہانہ چار ہزار روپے ٹیکس دینا پڑے گا جو گذشتہ برس دو ہزار تھا۔ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپے آمدن کی صورت میں گذشتہ برس آپ کو 7500 روپے ماہانہ ٹیکس ادا کرنا ہوتا تھا، تاہم اب یہ رقم بڑھ کر 10 ہزار روپے ماہانہ ہو جائے گی۔دو لاکھ روپے ماہانہ کمانے والوں کو گذشتہ برس تک 13750 روپے ماہانہ ٹیکس دینا پڑتا تھا، تاہم اب ان کا سلیب تبدیل ہو گیا ہے اور انھیں 19,166 روپے ماہانہ ٹیکس دینا پڑے گا۔ایسے افراد جن کی ماہانہ آمدن ڈھائی لاکھ روپے ہے وہ اس سے قبل 25 ہزار روپے ماہانہ ٹیکس کی مد میں دیا کرتے تھے، اب یہ 31666 روپے ماہانہ انکم ٹیکس دیں گے۔تین لاکھ ماہانہ کمانے والے افراد پہلے ماہانہ 36250 روپے انکم ٹیکس دیتے تھے اور اب اس رقم پر ان کا ماہانہ ٹیکس 45833 روپے بنے گا۔ساڑھے تین لاکھ کمانے والوں کا ماضی میں ماہانہ انکم ٹیکس 50 ہزار روپے تھا، جو اب بڑھ کر 61250 روپے ہو جائے گا۔ایسے افراد جن کی ماہانہ آمدن چار لاکھ روپے ہے وہ اس سے قبل 63750 روپے ماہانہ ٹیکس ادا کرتے تھے، اب یہ رقم بڑھ کر 78750 روپے ہو جائے گی۔

Back to top button