فوجی آپریشن دہشت گردی کے مرض کا صحیح علاج کیوں نہیں؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ایک اور فوجی آپریشن کی تیاری تو کر لی ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ پچھلے فوجی اپریشنز کا کیا نتیجہ نکلا؟ یقین جانیے اس آپریشن کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلنا اور کچھ سالوں بعد ایک اور آپریشن ہو رہا ہو گا۔ وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے مرض کی تشخیص ہی غلط کی جا رہی ہے۔ ہمارا علاج بہت سیدھا ہے، پاکستانی عوام کو جواب دہ پارلیمان ہی تمام تر داخلی اور خارجی پالیسیاں بنائے، باقی ادارے بیجا مداخلت کرنے کی بجائے ملکر ان پالیسیوں کے تسلسل کا اہتمام کریں، یقین جانیے سب مسائل حل ہو جائیں گے کیونکہ مہذب دنیا نے اسی سسٹم کے تحت ترقی کی ہے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حماد غزنوی کہتے ہیں کہ ریاست اور معاشرے کو بہت سی بیماریاں لاحق ہیں، یہ بدن فگار ہے، زخم بگڑتے چلے جاتے ہیں، زخموں میں پیپ بھرتی جاتی ہے، مگر ہم سنجیدگی سے زخموں کا علاج کرنے کے بہ جائے کوئی وقتی، ’دستی‘، شارٹ کٹ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ عدالتی نظام گل سڑ چکا ہے اور ہمارے پاس اس مسئلے کا ایک انوکھا حل ہے، طرح طرح کی رنگ بہ رنگی متوازی عدالتیں بناتے جائو ’’سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘، لہذا،فیڈرل شریعت کورٹس سے ملٹری کورٹس تک، درجنوںٹربیونلز سے اسپیشل کورٹس تک، بینکنگ کورٹس سے دہشت گردی کی عدالتوں تک، عدالتیں ہی عدالتیں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عالمی درجہ بندی میں ہماری عدالتیں لڑھکتی لڑھکتی نردبان کے آخری پلہ تک آ پہنچی ہیں۔ عام شہری کو انصاف کی فراہمی کا بنیادی مسئلہ وہیں کھڑا ہے۔پولیس کا نظام ’ـبہتر‘ بنانے کا ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ’’ماڈل‘‘ تھانہ بنا دیا جائے، کوئی اسپیشل فورس بنا دی جائے، موٹر وے کی علیحدہ پولیس کھڑی کر دی جائے، مگر پولیس کا بنیادی نظام ہر گزرتے دن کے ساتھ بگڑتا ہی چلا گیا۔ آج بھی ذرا سا کچھ امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو تو رینجرز اور ایف سی کو ہائر کیا جاتا ہے، آج بھی پولیس عوام دوست ادارے کے تصور سے نوری سالوں کے فاصلے پر ہے۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ شہریوں کو شہر میں سفر کرنے کیلئے ایک مہذب نظامِ حمل و نقل فراہم کرنا ہر حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کے کسی ایک شہر میں بھی ماس ٹرانزٹ کا کوئی منظم نظام موجود نہیں ہے جسکے تحت بسیں یا ٹرینیں کسی نظام الاوقات کے تحت شہر کے مختلف حصوں کو آپس میں جوڑتی ہوں۔ ہمارے پاس اسکا یہ حل ہے کہ کسی شہر کے کسی حصے میںمیٹرو بس یا نارنجی ٹرین چلا دی جائے۔ تو باقی شہر کا کیا قصور ہے؟ اور باقی ملک کا کیا قصور ہے؟ ان کیلئے بسیں اور ٹرینیں چلانے کیلئےکیا آسمان سے فرشتے اتریں گے؟ ہر روز ہم سنتے ہیں کہ دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، سرکاری تعلیمی ادارے جہالت بانٹ رہے ہیں، تعلیمی نصاب طلباکے سر پر آہنی خول چڑھا رہا ہے، ہمارے پاس اس قومی تعلیمی بحران کا کیا حل ہے، دانش اسکول؟ بڑی اچھی بات ہے اگر چند سو غریب بچے بھی ڈھنگ کے اسکولوں میں پڑھ لیں، لیکن کیا ہمارے کروڑوں بچوں کو پڑھانے کی ذمہ داری ـ’’دشمن‘‘ ادا کریگا؟ کیا چھلنی سینے کا علاج ایک دیدہ زیب شیروانی ہو سکتی ہے؟ کینسر کے مریض کی آنکھوں میں سُرمہ ڈالنے سے تو اُسکا علاج نہیں ہوا کرتا۔کرپشن کی روک تھام کیلئے ایف بی آر کے انٹیلی جنس اور انوسٹی گیشن ڈائریکٹوریٹ سے ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ تک، کم از کم نصف درجن ادارے موجود تھے، مگر انکی اصلاح میں لگتی تھی محنت زیادہ، لہذا ان سب اداروں سے اوپر نیب کا قیام عمل میں لایا گیا۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ نیب نے کرپشن کیا روکنا تھی، وہ خود بدعنوانیوں کا گڑھ بن گیا۔ ملک میں کرپشن کا مسئلہ آج تک جوں کا توں ہے۔ اب یہ ایپکس کمیٹی کس پرندے کا نام ہے؟ پھر وہی حرکت۔ پارلیمان کو کمزور کرنا ہے، اور اس کے اوپر ادارے قائم کرنے ہیں، یعنی مزید حماقتیں۔دہشت گردی کیخلاف تو پہلے بھی آپریشن ہو چکے ہیں، کام یاب آپریشن بھی ہو چکے ہیں، دہشت گردوں کو نکالا بھی گیا اور پھر انہیں دوبارہ لا کر بسایا بھی گیا۔ یہ سب کس ایپکس کمیٹی نے کیا تھا؟ کیا پھر ایسا ہی ہو گا؟ ہم پھر لہولہان ہونگے، کون جواب دہ ہو گا؟ عمریں گزر گئیں ’’آپریشن آپریشن‘‘ کھیلتے ہوئے۔ کیا نتیجہ نکلا؟ یقین جانیے کچھ سال بعد اس ملک میں ایک اور آپریشن ہو رہا ہو گا۔ یہ غلط تشخیص ہے۔ اس مرض کی جڑ وہ لوگ ہیں جو اپنا کام کرنے کی بجائے پارلیمنٹ اور سیاست دانوں کا کام کرنا چاہتے ہیں، اسی لیے کبھی تو وہ دباو میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیتے ہیں اور کبھی ان سے صلح کی ڈیل کر کے انہیں شہری علاقوں میں لا بٹھاتے ہیں۔ پالسیاں بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے، کسی شخص یا ادارے کا نہیں، لہذا جب تک پالیسی سازی کا عمل پارلیمان کے ہاتھ میں نہیں جائے گا یہاں فوجی اپریشن چلتے رہیں گے۔

Back to top button