پاکستانی سیاستدان فوج کی کٹھ پتلیاں بننے کو تیار کیوں رہتے ہیں؟

سینیئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ پاکستانی سیاسی جماعتوں کی قیادت عوام کی طاقت سے اقتدار حاصل کرنے کی بجائے خفیہ اداروں کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار حاصل کرنے کی عادی ہو چکی ہے لہذا اسے آپسی مزاکرات کرنے کی بجائے ان سے بات کرنا زیادہ فائدہ مند لگتا ہے جو کئی دہائیوں سے ان کی ڈوریاں ہلا کر انہیں کٹھ پتلیاں بنائے پھرتے ہیں۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ پاکستان کسی جنگ یا مسلح مزاحمت کے نتیجے میں قائم نہیں ہوا تھا بلکہ ایک سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کی پرامن سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں بنا تھا۔ بدقسمتی یہ کہ پاکستان قائم ہونے کے کچھ ہی ماہ بعد محمد علی جناح وفات پا گئے اور سیاستدانوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا۔ پاکستان بننے کے بعد پہلے دس سال کے دوران 7 وزرائے اعظم تبدیل ہوئے۔ پاکستان کی بانی جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی اور سیاستدانوں کی اس رسہ کشی کا فائدہ اٹھا کر 1958ء میں جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ پہلے مارشل لا نے پاکستان کو اتنا کمزور کر دیا کہ دوسرے مارشل لا کے دور میں جناح کا پاکستان ٹوٹ گیا۔ 1947ء سے 1971ء کے دوران 24 برسوں میں دو آئین لائے گئے۔ 1956ء کا آئین وفاقی پارلیمانی نظام کا نمائندہ تھا جبکہ 1962ء کا آئین پاکستان میں جنرل ایوب کا صدارتی نظام لایا۔ لطیفہ یہ ہے کہ آج اسی مارشل ڈکٹیٹر ایوب خان کا کا بیٹا عمر ایوب جمہوریت کا ماما بنا ہوا ہے۔ ملک کے پہلے دونوں آئین فوجی ڈکٹیٹرز نے توڑ دیئے۔ 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ایک تیسرا آئین منظور کیا گیا۔ اسی دور میں بھٹو ہالینڈ سے ڈاکٹر قدیر خان کو پاکستان لائے اور اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا۔

محسن نقوی کو سینیٹ کی نشست سے نااہل قرار دینے کی درخواست پر سماعت 4 جولائی تک ملتوی

حامد میر یاد دلاتے ہیں کہ اس کے چند سال بعد ایک اور مارشل لا لگا دیا گیا۔ پاکستان کے متفقہ آئین اور ایٹمی پروگرام کے بانی بھٹو کو سپریم کورٹ کے ججوں نے ضیا جنتا کی ملی بھگت سے پھانسی دیدی۔ اسکے بعد ملٹری اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ سے سیاستدانوں کو جیلوں میں بند کرنے اور نااہل قرار دینے کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ آج پاکستان دنیا کی سات ایٹمی طاقتوں میں سے ایک ہے لیکن اس ایٹمی طاقت کی خود مختاری کا یہ عالم ہے کہ اس کا وفاقی بجٹ وزارت خزانہ نہیں بلکہ آئی ایم ایف بناتی ہے۔ آئی ایم ایف کو اپنے قرضوں کی واپسی سے غرض ہے اور حکمران اشرافیہ کو عوام کی نہیں بلکہ اپنے مفادات کے تحفظ کی فکر ہے۔ لہٰذا یہ بجٹ عام آدمی کیلئے ایک منحوس خبر بن کر آتا ہے۔ اس سال کے بجٹ نے عام آدمی اور ریاست کے تعلق کو کمزور کردیا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان تو پہلے ہی پاکستان سے بھاگ رہے تھے اب کارپوریٹ سیکٹر سے وابستہ تنخواہ دار طبقے پر اتنے زیادہ ٹیکس لگا دیئے گئے ہیں کہ وہ گروپوں کی صورت میں پاکستان چھوڑ رہے ہیں۔ اب آپ سوچئے کہ جو ملک اپنا بجٹ خود نہیں بنا سکتا اسکا ایٹمی پروگرام مزید کتنا عرصہ محفوظ رہیگا؟ اس صورت حال کا ذمہ دار کوئی ایک ادارہ یا ایک جماعت نہیں بلکہ ہم سب ہیں۔

حامد میر کہتے ہیں کہ 1947ء سے آج تک 77 برسوں میں پاکستان پر 24 وزرائے اعظم نے 44 سال تک حکومت کی جبکہ صرف چار فوجی ڈکٹیٹروں نے 33 سال تک حکومت کی۔ ہر فوجی ڈکٹیٹر نے اوسطاً پاکستان پر سوا آٹھ سال حکومت کی اور ہر وزیراعظم نے مشکل سے ڈیڑھ سال حکومت کی۔ کوئی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکا۔ انکا کہنا یے کہ آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سیاست میں خفیہ اداروں کی کھلی مداخلت ہے۔ اس کا سب بڑا ثبوت اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی طرف سے ایجنسیوں کی مداخلت کے بارے میں لکھا گیا ایک خط ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس شاہد کریم نے اس مداخلت بارے فیصلہ سناتے ہوئے وزیر اعظم آفس سے کہا ہے کہ خفیہ اداروں کو ججوں سے رابطہ کرنے سے روکا جائے۔ اس حکم کا اطلاق ان ججوں پر بھی ہوگا جو اپنی مرضی و منشا سے خفیہ اداروں کے افسران سے ملتے ہیں اور ان سے ڈکٹیشن لیتے ہیں۔ ماضی میں ہماری عدلیہ اصغر خان کیس اور فیض آباد دھرنا کیس میں سیاست میں خفیہ اداروں کی مداخلت روکنے کیلئے تفصیلی فیصلے دے چکی ہے۔ ان فیصلوں پر عملدرآمد کرانا سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ سیاسی حکومتوں کی بھی ذمہ داری تھی لیکن دونوں ہی ان فیصلوں پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہیں۔

حامد میر یاد دلاتے ہیں کہ اصغر خان کیس میں پیپلزپارٹی کو 1990 کے انتخابات میں شکست دینے کیلئے خفیہ اداروں کی طرف سے نواز شریف اور دیگر سیاست دانوں کو رقم دینے کے شواہد سامنے آئے۔ فیض آباد دھرنا کیس میں 2017ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف دھرنا دینے والوں کی خفیہ اداروں کے افسران کے ساتھ ملی بھگت کو بے نقاب کیا گیا لیکن بعد میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں نے خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی۔ 2019ء میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دینے میں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر اہم جماعتیں ایک پیج پر تھیں۔ آج پاکستان کو جن پیچیدہ مسائل کا سامنا ہے ان میں سے اکثر جنرل باجوہ کے خبط عظمت کا نتیجہ ہیں لیکن ان مسائل کی اصل ذمہ داری ان سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دے کر ناصرف اپنے آپ کو بلکہ پاکستان کو کمزور کیا۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لئے سیاست میں فوج کی مداخلت کا راستہ خود ہموار کیا۔

حامد میر کہتے ہیں کہ ہمارے سیاست دان عوام کی طاقت سے اقتدار حاصل کرنے کی بجائے خفیہ اداروں کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار حاصل کرنے کے عادی ہو چکے ہیں لہٰذا یہ سیاستدان آپس میں بات کرنے کی بجائے خفیہ اداروں سے بات کرنا زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ انکے مطابق سیاسی جماعتوں کی کمزوری کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ان جماعتوں کی قیادت عوامی حقوق کیلئے جدوجہد کی بجائے پاور پالیٹکس کی اسیر بن چکی ہے۔ ان جماعتوں کی طاقت ان کا منشور نہیں بلکہ کچھ شخصیات ہیں جو اگلے پانچ سے دس سال میں زائد المیعاد ہو جائیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کو سوچنا چاہیے کہ چند ہزار افراد کا جلسہ کرنے کیلئے انہیں کروڑوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں لیکن منظور پشتین اور ماہ رنگ بلوچ معمولی خرچے سے بڑے بڑے جلسے کیسے کر لیتے ہیں حالانکہ انہیں میڈیا پر کوریج بھی نہیں ملتی۔ مختصر یہ کہ پاکستان ایک سیاسی جماعت نے بنایا تھا اور پاکستان کو صرف سیاسی جماعتیں بچا سکتی ہیں۔ لہازا سیاسی جماعتوں کو اپنی بقا کیلئے پاور پالیٹکس چھوڑنا ہو گی۔

Back to top button