چین کی پاکستانی حکومت اور فوج سے ناراضی کیوں برقرار ہے؟

سیاسی حلقوں میں چین اور پاکستان کے دیرینہ تعلقات میں کشیدگی آنے کی افواہیں گرم ہیں۔اگرچہ شہباز حکومت پاک چین دوستانہ تعلقات میں آنے والی کسی بھی کمی کی مسلسل تردید کررہی ہے لیکن اس سوال کا جواب سامنے نہیں آ رہا کہ چینی حکام نے خاموشی کے ساتھ حکومت تک اپنے تحفظات پہنچانے کی اپنی پرانی روایت کے برخلاف کھلم کھلا اپنے خدشات کا اظہار کیوں کرنا شروع کر دیا ہے۔کیا پاکستان اور چین کے تعلقات میں کوئی تبدیلی واقع ہو رہی ہے؟ یہ ہے وہ سوال جس کا جواب بہت سے مبصرین تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین بتاتے ہیں کہ چین کا سفارت کاری کا اپنا طریقہ ہے۔ یہ عوام میں دوستوں کو شاذ و نادر ہی شرمندہ کرتا ہے۔ اس میں صورتحال کی سنگینی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بیجنگ کا ترجیحی طریقہ اکثر پردے کے پیچھے کام کرتا رہا ہے۔ لیکن چند روز پہلے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئےچینی صدر شی کے قریبی سمجھے جانے والے ایک چینی وزیر لیو جیان چاؤ کی اس تقریر نے مبصرین کو حیرت زدہ کر دیا جس میں انہوں نے سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے سامنے ملک میں پائی جانے والی سکیورٹی کی صورتحال اور سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے اپنے خدشات کا کھلم کھلا اظہار کیا۔ کئی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ شاید ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی چینی رہنما نے پاکستان اور چین کے تعاون کو نقصان پہنچانے والی سلامتی کی صورتحال کے خطرات کے بارے میں اس طرح کھل کر بات کی ہو ۔

پاک چین تعلقات پر نگاہ رکھنے والے متعدد ماہرین نے بتایا کہ پاکستان میں چینی ورکرز کے خلاف بڑھتی ہوئی دہشتگردانہ کارروائیاں، پاکستان کا اندرونی عدم استحکام، اور سی پیک منصوبوں کی سست رفتار بھی چین کے لیے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مخالف سیاسی جماعتوں کے افراد کی مخالفت میں چینی منصوبوں کو متنازعہ بنانے کے عمل کو بھی چین نے پسند نہیں کیا ہے۔ سیاسی حلقوں میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ چینی کارکنوں کے خلاف کارروائیوں میں امریکی ہاتھ بھی ہو سکتا ہے اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں میں جکڑے پاکستان کے لیے ایک خاص حد سے آگے جانا آسان نہیں ہے۔

دوسری جانب سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کے مطابق چین کو پاکستان میں کام کرنے والے اپنے سکیورٹی ورکرز کے خلاف ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں پر تشویش ہے۔”ہم ان کو اس حوالے سے پوری طرح مطمئن نہیں کر سکے۔ایک مقام پر دو بار دہشت گردی کی وارداتوں کا ہو جانا چین کے لیے قابل تشویش ہے۔ چینی آخر پاکستان کی مدد کے لیے آ رہے ہیں وہ یہاں مرنے کے لیے تو نہیں آ رہے۔‘‘خورشید قصوری بتاتے ہیں کہ پاکستان میں کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں لیکن یہ ہماری نالائقی ہے کہ ہم سی پیک کو اب تک اس میعار تک نہیں پہنچا سکے جہاں پر اسے ہونا چاہیے تھا۔ ان کے مطابق سی پیک منصوبوں کے پلان کے مطابق پاکستان میں سڑکوں ، بجلی اور فون کی سہولیات والے اعلٰی معیار کے اسپیشل اکنامک زونز بننا تھے جو نہیں بن سکے۔

خورشید قصوری سمجھتے ہیں کہ سی پیک منصوبہ آگے بڑھے گا۔ چین پاکستان کا ساتھ نہیں چھوڑے گا لیکن چین سیکورٹی کے معاملات پر بہت مضطرب ہے جسے پاکستان کی حکومت کو بھی محسوس کرنا ہوگا، خورشید قصوری نے کہا کہ یہ بات بہت دکھ کا باعث ہے کہ بیرونی دنیا ہماری سیاسی قیادت پر زیادہ اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ ” وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کوئی کمٹمنٹ کرلے تو اس کے پورا ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آرمی ڈیلیور کر سکتی ہے۔‘‘

تاہم بین الاقوامی تعلقات کے ماہر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور چین کے تعلقات خراب نہیں ہوں گے کیونکہ صرف پاکستان کو ہی چین کی ضرورت نہیں بلکہ چین کو بھی پاکستان کی ضرورت ہے۔ خطے کی سیاست میں چین اور بھارت کے بابین اختلافات ہیں۔ چین کو یہاں ایک ایسے ملک کی ضرورت ہے جو بھارت کے مقابلے میں چین کا ساتھ دے۔ یہ ملک پاکستان ہی ہو سکتا ہے اور پاکستان کے ذریعے چین کو بیرونی تجارت کے لیے ایک سمندری راستہ بھی مل سکتا ہے۔

تاہم یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی موجودہ حکومت چین کے تحفظات دور کر پائے گی؟اس سوال کے جواب میں خورشید قصوری کا کہنا تھا کہ اس سوال کا حتمی جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا۔ ” یہ کوئی راز نہیں ہوگا اگلے چھ مہینوں میں پتہ چل جائے گا کہ کیا اسپیشل اکنامک زونز پر کام شروع ہوا ہے کہ نہیں؟ کیا دہشت گردی پر قابو پایا جا سکا یا نہیں ؟ کیا سی پیک منصوبوں پر عملدرآمد کی رفتار بڑھی یا نہیں؟‘‘ ملک میں چینی شہریوں پر حملوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے دفاعی تجزیہ کار برگیڈیئر (ر) فاروق حمید خان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک پیچییدہ مسئلہ ہے اور دہشت گردی پر عوامی اور سیاسی حمایت کے بغیر قابو پانا مشکل ہوگا۔ ان کے خیال میں تحریک طالبان پاکستان، بھارتی خفیہ ایجنسی را اور عالمی سطح پر چین کی مخالفت کرنے والی قوتیں ہو سکتی ہیں۔ ان کے بقول، ”چینیوں کو بھی چاہیے کہ وہ افغانستان کی طرف سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کی روک تھام کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرے۔

Back to top button