مولانااپنی احتجاجی تحریک کو دھمکی سے آگے کیوں نیہں لےجاتے؟

ہمیشہ چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والے سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمٰن اقتدار کا نشہ پورا نہ ہونے پر تذبذب کا شکار ہیں کبھی وہ وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ جپھیاں ڈالتے نظر آتے ہیں تو کبھی پی ٹی آئی رہنماؤں سے ملاقاتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ جب کسی بھی طرف سے اقتدار کی راہ صاف دکھائی نہیں دیتی تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کو للکارنا شروع کر دیتے ہیں۔ چند روز قبل تک پی ٹی آئی سے اتحاد کی مخالفت کرنے والے مولانا فضل الرحمٰن ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کیخلاف لڑائی میں تحریک انصاف کی طرف جھکتے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی اپنے مفادات کیلئے مولانا کی سٹریٹ پاور تو استعمال کرنا چاہتی ہے تاہم فیصلہ سازی ان کے ہاتھ میں دینے کو تیار نہیں ہے اس لئے جے یو آئی کا تحریک انصاف سے بھی اتحاد ہوتا نظر نہیں آتا۔

خیال رہے کہ اسلام آباد میں دو روز تک جاری رہنے والے جے یو آئی کی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جہاں مولانا نے ایک بار پھر آٹھ فروری کے انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر فوری نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔ وہیں قرار دیا ہے کہ آئین تمام اداروں کے دائرہٴ کار کا تعین کرتا ہے اور افواج کی سیاست میں مداخلت آئینی تقاضوں سے متصادم ہے وہ الیکشن کے عمل میں افواج، خفیہ ادارے اپنی مداخلت کو ختم کریں گے۔ ان کے بقول انہوں نے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف تحریک کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔مولانا کے مطابق حکومت سے ہونے والے رابطوں کے بارے میں شوریٰ نے طے کیا ہے کہ حکومت میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ ہماری اور تمام سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کر سکے۔مولانا فضل الرحمٰن کے بقول تحریک انصاف سے اتحاد کے حوالے سے بیانات میں تضاد پایا جاتا ہے۔پی ٹی آئی اگر سیاسی مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو پہلے اپنے اندر یکسوئی پیدا کرے اور مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کرے تو سنجیدہ مذاکرات کو خوش آمدید کہیں گے۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے اسلام میں اب تک اتحاد ہوجانا چاہیے تھا لیکن پارٹی کی موجودہ قیادت کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا اور مولانا فضل الرحمٰن نے بھی کہہ دیا کہ پی ٹی آئی قیادت میں یکسوئی کا فقدان ہے۔فواد چوہدری کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن سے کچھ دن پہلے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی میں ہر بندہ اپنا چورن لے کر آجاتا ہے اور ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ کس سے بات کریں اور کس سے نہ کریں۔انہوں نے کہا کہ مولانا درست فرما رہے ہیں کیونکہ جو لوگ کونسلر نہیں بن سکے وہ آج پی ٹی آئی کی قیادت بن گئے ہیں۔ تاہم حکموت کو ٹف تائم دینے کیلئے پی ٹی آئی اور جے یو آئی کا اتحاد ناگزیر ہے لیکن موجودہ قیادت کی وجہ سے مولانا فضل الرحمٰن نے آج پریس کانفرنس میں بھی کہہ دیا کہ پی ٹی آئی قیادت میں یکسوئی کا فقدان ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس پر سینئر صحافی و تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ اس وقت مولانا فضل الرحمٰن کا نئے انتخابات کا مطالبہ ان کے اضطراب کو ظاہر کرتا ہے۔ 2018 کے انتخابات کے بعد بھی مولانا فضل الرحمٰن نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں پارلیمنٹ کا حصہ نہ بنیں۔ تاہم پیپلز پارٹی کی حکمتِ عملی کے باعث اس وقت سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کا حصہ بنیں تھیں۔

سلمان غنی کے مطابق جب پی ڈی ایم نے عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کو کامیاب کیا۔ تو مولانا فضل الرحمٰن انتخابات کے لیے تیار نہیں تھے کیونکہ انہیں حکومت میں حصہ ملا تھا اور ان کے بیٹے وزیر اور سمدھی گورنر تھے۔ اس وقت مولانا نے انتخابات کے حوالے سے کہا تھا کہ انتخابات میں جانا حماقت ہو گی۔سلمان غنی کے مطابق اگر دوبارہ انتخابات ہو جاتے ہیں تو کہ کیا مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت کو بڑی پارلیمانی حیثیت مل جائے گی؟ان کے بقول دراصل بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کسی بڑے منصب کی تلاش میں ہیں اور انہیں توقع تھی کہ نئی حکومت میں وہ ایوانِ صدر میں بیٹھیں گے۔ لیکن بندوبست کے تحت یہ منصب آصف زرداری کے حصے میں آیا ہے۔اب مولانا فضل الرحمٰن یہ شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ بڑی جماعتیں انہیں استعمال کرتی ہیں اور انہیں ان کا حصہ نہیں ملتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کا نئے انتخابات کا مطالبہ ایک روایتی مطالبہ ہے۔ لیکن ان کا الیکشن کا مطالبہ پورا ہو سکے گا یا نہیں، یہ ابھی دکھائی نہیں دیتا۔سلمان غنی نے کہا کہ کوئی شک نہیں کہ قبل از وقت الیکشن ایک جمہوری راستہ ہے۔ لیکن موجودہ بندوبست چلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

سلمان غنی کہتے ہیں کہ انتخابات میں مولانا فضل الرحمٰن کی کوئی پارلیمانی حیثیت نہیں بن سکی، نہ قومی اسمبلی اور نہ ہی خیبر پختونخوا اور بلوچستان اسمبلی میں اور اس صورتِ حال میں ان کو توقع تھی کہ پی ٹی آئی انہیں حزبِ اختلاف کے اتحاد کا سربراہ بنائے گی۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہو سکا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن نے جہاں حکومت سے مایوسی کا اظہار کیا وہیں وہ پی ٹی آئی کے رویے سے بھی خوش نہیں ہیں۔سلمان غنی نے کہا کہ ایسی صورتِ حال میں پی ٹی آئی سے مولانا فضل الرحمٰن کے اتحاد کے امکانات نظر نہیں آ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو پی ڈی ایم کے سربراہ کا منصب دے کر ایک ایسی روایت قائم ہو گئی ہے اور وہ اب بھی چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی انہیں حزبِ اختلاف کے اتحاد کا سربراہ بنائے۔

تاہم سلمان غنی کے بقول پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمٰن کی احتجاجی حیثیت کو تو ساتھ رکھنا چاہتی ہے، لیکن فیصلہ سازی ان کے ہاتھ میں دینے کو تیار نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں میں حکومت کی مخالفت پر تو اتفاق ہے۔ لیکن باقاعدہ اتحاد کی صورت ممکن نہیں ہے اور اس حوالے سے سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحب زادہ حامد رضا کا بیان بہت واضح ہے۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن سے اتحاد نہیں کرنا چاہئے۔

Back to top button