مخصوص نشستوں کا کیس: موجودہ تنازع الیکشن کمیشن کی غلطیوں کی وجہ سے ہوا، سپریم کورٹ

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے کہا ہےکہ موجودہ تنازع الیکشن کمیشن کی غلطیوں کی وجہ سے آیا، سپریم کورٹ کی ڈیوٹی نہیں کہ غلطی کو ٹھیک کرے جب کہ عدالت انصاف کے تقاضوں کا نہیں آئین اور قانون کا اطلاق کرتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کی، کیا آئینی ادارے کی جانب سے غیرآئینی تشریح کی عدالت توثیق کر دے؟ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ پارلیمانی نظام کی بنیاد سیاسی جماعتوں پر ہے۔

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے کی۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت عظمیٰ میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے پاس ریکارڈ آگیا ہے، 2002 اور 2018 میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی ریکارڈ ہے، سیاسی جماعتوں کی حاصل کردہ نشستوں پر ہی مخصوص سیٹوں کا کوٹہ بنتا ہے، مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایا گیا، اقلیتیوں کی مخصوص نشستوں کی تعداد 10 ہے۔

اراکین اسمبلی کو 500 ارب کا ترقیاتی فنڈ دینے کا دعویٰ غلط ہے، عطاء اللہ تارڑ

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 2002 کی قومی اسمبلی میں 14 آزاد ارکان تھے، 14 آزاد ارکان کو نکال کر باقی مخصوص نشستوں کا فارمولا نکالا گیا، ان 14 آزاد ارکان کی مخصوص نشستیں دو سیاسی جماعتوں میں بانٹی گئیں، ایک اسمبلی میں بلوچستان میں 20 فیصد آزاد اراکین تھے، آزاد ارکان کو ہمیشہ الگ کیا جاتا رہا ہے، انتخابات 2002 میں بلوچستان میں 20 فیصد آزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے، مخصوص نشستوں کے تعین میں آزاد امیدواروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، جو آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل ہوجائے وہ پارٹی کا رکن تصور ہوتا ہے۔

اٹارنی جنرل کے دلائل پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 51 ایک سیاسی جماعت کا حق ہے، الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو باہر کیا جو ایک اہم سوال ہے، کیا سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں قانون کی خلاف ورزی کو دیکھے؟ ووٹرز نے سیاسی جماعت کو ووٹ دیا تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ماضی میں کبھی آزاد اراکین کا معاملہ عدالت میں نہیں آیا، اس مرتبہ آزاد اراکین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور کیس بھی آیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آئین واضح ہے مخصوص نشستیں خالی نہیں چھوڑی جاسکتیں، اگر اسمبلی مدت ختم ہونے میں 120 دن رہ جائیں تو آئین کہتا ہے الیکشن کرانے کی ضرورت نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کسی فریق نے یہ کہا ہے کہ نشستیں خالی رہیں گی؟ ہر فریق کہتا ہے نشستیں ہمیں دی جائیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا فیصل صدیقی نے کہا تھا اگر سنی اتحاد کونسل کو نشستیں نہیں ملتی تو خالی چھوڑ دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے انصاف پر مبنی ہیں، ہر فیصلے نے آئین کو فالو کیا، کچھ ججز دانا ہوں گے، میں اتنا دانا نہیں، پاکستان کو ایک بار آئین کے راستے پر چلنے دیں۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 9 جولائی تک ملتوی کردی۔

Back to top button