پیپلز پارٹی کو جھنڈی دکھانے پر انصار عباسی کی مریم کو شاباش

سینیئر صحافی انصار عباسی نے کہا ہے کہ وزیراعلی مریم نواز نے پیپلز پارٹی کے اراکین پنجاب اسمبلی کی جانب سے بیوروکریسی میں افسران کی ٹرانسفرز اور پوسٹنگز کے حوالے سے کیے جانے والے مطالبات رد کر کے ایک اچھی مثال قائم کی ہے جس پر انہیں شاباش ملنی چاہیے اور یہ امید کرنی چاہیے کہ وہ اپنے اصولی موقف پر ڈٹی رہیں گی۔

اپنے تازہ تجزیے میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ انہیں امید تو نہیں تھی لیکن مریم نواز کی پنجاب حکومت نے صوبے کی سول بیوروکریسی اور پولیس میں سیاسی بنیاد پر تعیناتیوں کے سلسلے کو روک دیا ہے۔  وہ کب تک ایسا کرنے میں کامیاب رہیں گی اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا لیکن یہ وہ عمل ہے جس کی پاکستان میں گورننس کو بہتر بنانے کیلئے اشد ضرورت ہے۔ انکا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی والوں کا مریم نواز حکومت پر بہت دباؤ ہے کہ اسکے ایم پی ایز کو پنجاب کے ان علاقوں میں اپنے پسند کے سول انتظامیہ اور پولیس کے افسران لگانے کی اجازت دی جائے جہاں اس نے الیکشن جیتا ہے کیوں کہ یہی ماضی میں ہوتا رہا۔

ہر سیاسی جماعت کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی کوشش رہی کہ اُن کے علاقوں میں اُن کی مرضی کے پولیس اور سول انتظامیہ کے افسران تعینات کیے جائیں تاکہ اُن کے مرضی کے مطابق انتظامیہ اور پولیس کام کرے۔ انصار عباسی کے مطابق یہ وہ رجحان ہے جس کا آغاز 80 کی دہائی سے ہوا اور پھر بڑھتا ہی چلا گیا اور آج پاکستان کی سول سروس اور پولیس کو بدترین قسم کی سیاسی مداخلت کا سامنا ہے۔ اس کلچر نے نہ صرف ہمارے گورننس سسٹم کو نہ صرف تباہ کیا بلکہ ہر سرکاری ادارے کی کارکردگی کو شدید نقصان پہنچایا۔

گیس کی نئی قیمتوں کا نوٹی فکیشن جاری

مختلف حکومتی ادوار کے دوران انتظامی اصلاحات کیلئے بنائے گئے کمیشنوں اور کمیٹیوں نے ہمیشہ بیوروکریسی میں کی جانے والی تعیناتیوں میں سیاسی اور بیرونی مداخلت کو پاکستان میں خراب گورننس اور بدتر سروس ڈلیوری کی وجہ قرار دیا لیکن کسی بھی حکومت نے اس سیاسی مداخلت کو روکنے کیلئےکوئی عملی قدم نہ اُٹھایا بلکہ یہ سیاسی مداخلت ہر نئی حکومت میں بڑھتی ہی چلی گئی۔

انصار عباسی کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ اپنے انتخابی منشور میں سول سروس یعنی سول انتظامیہ کو سیاست اور بیرونی مداخلت سے پاک کرنے کا وعدہ کیا لیکن یہ وعدہ کبھی وفا نہ ہوا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر پاکستان کی سول سروس کو سیاست زدہ کرنے میں بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، فوجی ڈکٹیٹرز بھی یہی کچھ کرتے رہے جبکہ تحریک انصاف حکومت نے تو بیوروکریسی کو سیاست زدہ کرنے کے تمام ریکارڈ توڑ دیے جسکی سب سے بڑی مثال عثمان بزدار کی نکمی حکومت تھی۔  اُس دور میں چیف سیکرٹری سے لے کر ائی جی تک نہ صرف سول اور پولیس افسران کو ہر چند ماہ بعد تبدیل کر دیا جاتا تھا بلکہ یہ بھی الزام لگائے گئے کہ افسران کو رشوتیں لے کر لگایا اور ہٹایا جاتا رہا۔ ایسے میں مریم نواز حکومت کی طرف سے صوبے میں سرکاری افسران کی تعیناتیوں میں کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت کو روکنے کا فیصلہ اور اس پر عمل درآمد کرنا ایک خوش آئند اقدام ہے جس کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے بلکہ اس پر دوسرے صوبوں اور وفاق کو بھی عمل درآمد کرنا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کے مطابق جن شرائط کی بنیاد پر اُنہوں نے ن لیگ کی حکومت کی حمایت کا فیصلہ کیا اُن میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ پنجاب کے اُن اضلاع میں جہاں پی پی پی نے الیکشن جیتا وہاں اُن کے من پسند افسران کو تعینات کیا جائے گا۔ مریم نواز نے حکومت میں آتے ہی ن لیگ کے ممبران اسمبلی پر یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ سرکاری ملازمین کی تعیناتیوں کے سلسلے میں کسی کی سفارش اور مداخلت کو برداشت نہیں کریں گی۔

انصار عباسی کہتے ہیں کہ مجھے یقین نہیں تھا کہ مریم نواز نے جو اعلان کیا اُس پر وہ عمل بھی کر پائیں گی۔ تاہم چیف سیکریٹری پنجاب کے علاوہ میری پنجاب کی بیوروکریسی میں کچھ اہم افسران سے بات ہوئی تو سب نے تصدیق کی کہ افسران کی تعیناتیوں کیلئے اب سیاسی مداخلت کو روک دیا گیا ہے اور اب یہ سب رولز کے مطابق متعلقہ اداروں کی طرف سے دیے گے افسران کے پینل کی بنیاد پر ہو رہی ہیں۔ انصار کے مطابق انہیں چیف سیکریٹری نے بتایا ہے کہ ہر اہم تعیناتی کیلئے افسران کا پینل اب متعلقہ محکمہ بھیجتا ہے اور وزیر اعلیٰ ان افسران کو انٹرویو کی بنیاد پر تعینات کرتی ہیں۔ چیف سیکریٹری کا کہنا تھا کسی بھی افسر کو کسی کی سفارش پر تعینات نہیں کیا جا رہا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مریم نواز کب تک اپنے اس فیصلہ پر ڈٹی رہیں گی۔ اگر واقعی وہ پنجاب کی سول سروس اور پولیس کو غیر سیاسی کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں اور بیرونی اور سیاسی مداخلت کو ختم کر دیتی ہیں تو یہ پاکستان کی گورننس کو بہتر بنانے کی طرف بہت بڑا قدم ہو گا۔

Back to top button