حکومت نے عوام کے لیے بجلی کے بل کو جگا ٹیکس کیسے بنا دیا؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری نے کہا ہے کہ بجلی کے تباہ کن بلوں سے تنگ پاکستانی عوام کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے اور کسی بھی وقت کوئی چھوٹا سا واقعہ کسی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ انکے مطابق آج صورت حال یہ ہے کہ عوام کی آمدن کا بڑا حصہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی میں خرچ ہو رہا ہے اور یہ فیصلہ نہیں ہو پاتا کہ گھر کا کرایہ دیں یا بجلی کا بل جس میں استعمال شدہ بجلی کی قیمت سے کئی گنا زیادہ ٹیکس ڈال دیے جاتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بجلی کا بل نہیں بلکہ کوئی ’’جگا ٹیکس‘‘ ہے جو بدمعاشی اور بے شرمی سے وصول کیا جارہا ہے۔ لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ عوام کی رگوں سے آخری قطرہ خون تک نچوڑ لینے کے باوجود ملک کے معاشی معاملات بہتر ہونے کے بجائے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔

روزنامہ جنگ کے لیے تازہ سیاسی تجزیے میں بلال غوری کہتے ہیں کہ پاکستان مسلسل آئی ایم ایف سے قرض لے کر ملک چلانے پر مجبور ہے جسکے نتیجے میں بجٹ حکومت نہیں بلکہ آئی ایم ایف بناتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے گردشی قرضوں کا پہاڑ مسلسل بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ صرف پاور سیکٹر کا سرکولر ڈیبٹ 2310ارب روپے ہوچکا ہے۔ اور ان میں سب سے بڑا حصہ آئی پی پیز کا ہے جن کو حکومت نے 1800ارب روپے کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ پاکستانی عوام کا خیال ہے کہ شاید آئی پی پیز کے ٹھیکے مقامی سرمایہ کاروں کے پاس ہیں مگر پورا سچ یہ ہے کہ زیادہ تر ادائیگیاں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو کرنی ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں چین کو آئی پی پیز کے 550 ارب روپے کے واجبات فوری طور پر ادا کرنے کو کہا گیا ہے۔ دراصل لوڈشیڈنگ ختم کرنے کیلئے ہماری حکومتوں نے نجی شعبہ کی غلامی کا طوق گلے میں ڈال کر سب سے بڑی غلطی کی اور یہ دو چار برس کی بات نہیں، گزشتہ 30 برسوں سے ہم مسلسل اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتے چلے گئے اور احساس اب ہوا جب خون کی آخری بوندیں باقی رہ گئیں۔

عوامی نیشنل پارٹی نے بھی نئے انتخابات کا مطالبہ کردیا

 بلال غوری کہتے ہیں کہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز یعنی آئی پی پیز کی لابی آپ کی سوچ سے کہیں زیادہ مضبوط اور طاقتور ہے۔ کوئی سائفر لیک ہونا ممکن ہے، آپ آرمی ایکٹ کی کاپی حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے مگر حکومت نے کن شرائط پر غیر ملکی آئی پی پیز کیساتھ کیا معاہدے کئے ہیں، یہ معلومات قومی سلامتی کے معاملات سے بھی زیادہ حساس ہیں اور فیصلہ ساز کسی قیمت پر یہ تفصیلات فراہم کرنے کو تیار نہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی بھی معاہدے پر دستخط کرتے وقت اسے ختم کرنے کی شق ضرور شامل کی جاتی ہے مگر آئی پی پیز کیساتھ کئے گئے معاہدوں میں ’’ٹرمینیشن کلاز‘‘ شامل نہیں۔ چونکہ انہیں ادائیگیاں ڈالروں میں کرنی ہوتی ہیں اسلئے بجلی کا یونٹ 8 روپے سے 45 روپے ہوجانے کے باوجود گردشی قرضوں کا حجم بڑھتا جارہا ہے۔ آپ بجلی کا یونٹ 100روپے کا کردیں پھر بھی یہ واجبات ادا نہیں کئے جاسکتے ۔لوگوں نے بجلی کے بلوں سے چھٹکارا پانے کی ایک صورت یہ نکالی کہ شمسی توانائی پر انحصار کرتے ہوئے سولر پینل لگالئے مگر اب حکومت اس رجحان کی بھی حوصلہ شکنی کررہی ہے کیونکہ سولر پینل بالعموم ان شہری علاقوں کے صارفین لگاتے ہیں جہاں بجلی چوری نہیں ہوتی۔ لہٰذا ایک طرف سے ریونیو کم ہو رہا ہے اور دوسری طرف یہ مسئلہ ہے کہ بجلی خریدیں یا نہ خریدیں، آئی پی پیز کو ادائیگی تو کرنی ہے۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ حکومت اور کچھ نہیں کر سکتی تو کم ازکم آئی پی پیز سے کئے گے معاہدوں کی تفصیلات ہی پبلک کر دے۔ عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔ پتہ تو چلے کہ یہ عذاب کب تک مسلط رہیگا، اور اس سے چھٹکارا پانے کی کوئی صورت ہے یا نہیں؟

Back to top button