جنرل باجوہ جیسے جرنیلوں کی تنخواہیں اور پینشن پبلک کرنے کا مطالبہ

سینیئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ نیا وفاقی بجٹ آنے کے بعد قومی اسمبلی میں موجودہ ججز کی بھاری تنخواہوں اور ریٹائرڈ ججز کی بھاری پینشنز کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں لیکن جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان جیسے دیگر جرنیلوں کی ان سے بھی بھاری تنخواہوں اور پوسٹ ریٹائیرمینٹ پینشن اور مراعات کا کوئی ذکر نہیں۔

اپنی تازہ تحریر میں حامد میر کہتے ہیں کہ یہ 2018 کے الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے صحافیوں کے ایک گروپ کو نیشنل سکیورٹی پر بریفنگ کیلئے بلایا اور گفتگو کے دوران کہنے لگے کہ مجھے سب پتہ ہے کہ لیٹ نائٹ آپ کی کیا سرگرمیاں ہیں؟ یہ سن کر وہاں موجود کچھ صحافیوں نے ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھا اور پھر ایک ساتھی نے یہ کہہ کر بات گول کر دی کہ ان سرگرمیوں کا نیشنل سکیورٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ تھوڑی دیر بعد باجوہ صاحب نے اپنی انگلی کا رخ میری طرف کیا اور کہا کہ مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ آپ کن کن غیر ملکی سفیروں کو ملتے ہیں۔ یہ سن کر میں مسکرایا اور فوراً جواب میں کہا کہ جناب ہم انہی سفیروں کو ملتے ہیں جن کو آپ بھی ملتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ آپ انہیں ملاقات کی دعوت خود دیتے ہیں اور ہم ان سے انکی دعوت پر ملتے ہیں۔

حامد میر کے مطابق باجوہ صاحب کو اس قسم کے جواب سننے کی عادت نہ تھی۔ انہوں نے پینترا بدلا اور کہا کہ مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ آپ کتنی کتنی تنخواہ لیتے ہیں؟ پھر خود ہی لقمہ دیا اور کہا کہ آپ کی تنخواہ تو میرے سے بھی زیادہ ہے۔ میں نے بولنے کیلئے زبان کھولی تو باجوہ نے کہا ہاں ہاں آپ کہیں گے کہ میری مراعات بہت زیادہ ہیں۔ ملازم بہت زیادہ ہیں لیکن تنخواہ تو آپ کی زیادہ ہے۔ ایک ساتھی نے بڑے احترام سے عرض کیا کہ سر جی! ہم میں سے ہر کسی نے بیس سال یا تیس سال پہلے میڈیا انڈسٹری میں قدم رکھا۔ جس طرح آپ کیپٹن سے جنرل بن گئے ہیں اور آپ کی تنخواہ بڑھ گئی ہے تو ہماری بھی بیس تیس سال میں تنخواہ بڑھ گئی ہے اور اکثر ٹی وی اینکرز کی تنخواہ ان کے شو کی ریٹنگ کے مطابق ہوتی ہے کیونکہ زیادہ ریٹنگ والے شوز پورے چینل کو کما کر دیتے ہیں۔ ایک دفعہ پھر باجوہ صاحب کو جواب پسند نہ آیا اور انہوں نے موضوع بدل دیا لیکن ایک دل جلے ساتھی نے میری طرف دیکھ کر کہا کہ جنرل صاحب کو ریٹائرمنٹ کے بعد ایک بڑی سی پنشن ملے گی اور ہمیں کچھ بھی نہیں ملے گا۔

حامد میر بتاتے ہیں کہ جنرل باجوہ کے پاس ٹی وی اینکرز کی تنخواہ کے بارے میں اکثر اوقات غلط انفارمیشن ہوتی تھی لہٰذا ایک دن ہمارے ایک اینکر دوست انہیں غلط ثابت کرنے کیلئے سیلری سلپ اپنے ساتھ لے گئے۔ کچھ دنوں بعد ایک کیس کی سماعت کے دوران اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی اینکرز کی تنخواہوں کا معاملہ چھیڑ دیا۔ انہیں بتایا گیا کہ تمام اینکرز کی تنخواہوں سے بھاری انکم ٹیکس کٹتا ہے اور وہ انکم ٹیکس ریٹرنز میں اپنی آمدنی اور اثاثوں کا باقاعدگی سے اعلان کرتے ہیں، اگر کسی نے غلط بیانی کی ہے تو ایف بی آر سے انکوائری کرا لیں۔ ان کی تسلی نہ ہوئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپ اگلی پیشی پر سیلری سلپ لے کر آئیں۔ میں اگلی پیشی پر اپنے بینک اکائونٹ کی مکمل تفصیل لے گیا اور بھری عدالت میں چیف جسٹس کو پیش کردی۔

حامد میر کے بقول میں یہ واقعات آپ کو اس لئے سنا رہا ہوں کہ کچھ دن پہلے آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان کے سامنے بھاری پنشن لینے والے سرکاری ملازمین کی ایک فہرست رکھی ہے۔ یہ وہ فہرست ہے جو قومی اسمبلی میں پیش کی گئی تھی۔ اس فہرست کے مطابق سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے 2023ء میں گیارہ لاکھ 66 ہزار روپے، ثاقب نثار نے 10 لاکھ 73 ہزار روپے، شیخ ریاض نے 16 لاکھ، عمر عطا بندیال نے 9 لاکھ 23 ہزار، عبدالحمید ڈوگر نے 14 لاکھ اور ناصر الملک نے گیارہ لاکھ 20 ہزار روپے بطور ماہانہ پنشن وصول کئے۔ اس فہرست کے مطابق سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے کئی ریٹائرڈ ججوں کی پنشن 10 لاکھ سے 14 لاکھ روپے ماہانہ کے درمیان ہے۔ کئی ریٹائرڈ بیوروکریٹ 5 لاکھ روپے سے زیادہ پنشن وصول کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کو تشویش ہے کہ اس سال نئے بجٹ میں 1014 ارب روپے صرف پنشن کیلئے رکھے گئے ہیں اور پنشن میں 15فیصد اضافہ بھی کر دیا گیا۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ چھوٹے سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد بہت کم پنشن ملتی ہے پنشن میں 15 فیصد اضافے کا انہیں زیادہ فائدہ نہیں۔ یہ فائدہ ان ریٹائرڈ ججوں، جرنیلوں اور بڑے افسران کو ہوگا جو پہلے ہی ماہانہ لاکھوں روپے بطور پنشن وصول کرتے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو ڈبل پنشن وصول کرتے ہیں۔ لہقزا حامد میر کے خیال میں اسمبلی میں صرف ریٹائرڈ ججوں اور بیوروکریٹس کی پنشن کی فہرست نہیں آنی چاہئے بلکہ جنرل باجوہ اور ان جیسے دیگر جرنیلوں کی بھاری پنشن اور دیگر مراعات کا بھی ذکر ہونا چاہئے۔

Back to top button