کیا تحریک انصاف میں اندرونی تقسیم عمران کی اپنی پالیسی ہے؟

سینیئر صحافی انصار عباسی نے کہا ہے کہ عمران خان کو تحریک انصاف کے اندر آپسی لڑائیوں کا نقصان کم اور فائدہ ذیادہ یے۔ یہ انکی سوچی سمجھی پالیسی یے کہ وہ جب تک قید ہیں انکی جماعت مسلسل دو گروہوں میں تقسیم رہے تا کہ انکی غیر موجودگی میں کوئی بھی پارٹی لیڈز اتنا طاقتور نہ ہو جائے کہ پی ٹی آئی ہائی جیک کرنے کی پوزیشن میں آ جائے۔ اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے اندر کی تقسیم اور گروپنگ پر آج کل بہت بحث ہو رہی ہے لیکن جو لوگ عمران خان کی سیاست کو جانتے ہیں یا تحریک انصاف کے ماضی سے آگاہ ہیں اُن کو یہ اندازہ ہو گا کہ یہ پارٹی ہمیشہ سے تقسیم اور گروپنگ کا شکار رہی۔ جب تحریک انصاف کی حکومت تھی تو اُس وقت بھی تقسیم اور اختلافات کی باتیں میڈیا کے ذریعے سامنے آتی رہتی تھیں۔ ایک گروپ عمران خان کے قریب ہونے کی وجہ سے دوسرے گروپ کے نشانے پر تھا۔ آج بھی تقسیم اور اختلافات کی یہی وجہ ہے کہ ایک گروپ عمران خان کے قریب ہے جبکہ دوسرے جنہوں نے گزشتہ ایک دو سال میں جیلیں کاٹیں یا عمران خان اور تحریک انصاف کیلئے مشکلات کا سامنا کیا وہ اس بات پر خفا ہیں کہ فیصلہ سازی میں اُن کو اہمیت نہیں دی جارہی جبکہ اہم ذمہ داریاں بھی دوسروں کو ہی دی جا رہی ہیں۔

فواد چودھری کا جی ڈی اے،جماعت اسلامی،پی ٹی آئی کو اتحادکامشورہ

انصار عباسی کہتے ہیں کہ ماضی میں کس لیڈر کو کو عمران خان نے کتنی اہمیت دی اس کا تعلق نہ میرٹ سے تھا اور نہ ہی کسی کی تحریک انصاف کیلئے قربانیوں سے۔ یہی کچھ آج بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ عثمان بزدار کو عمران خان نے پنجاب کا وزیراعلیٰ کیوں بنایا، بزدار نے ماضی میں تحریک انصاف کیلئے کیا کچھ کیا، اس پر پارٹی کے اکثر رہنماوں کا کیا خیال تھا سب عوام کے سامنے ہے۔ یہی کچھ خیبر پختون خوا میں محمود خان کے وزیراعلیٰ بننے پر دیکھا گیا۔ آپس میں اس تقسیم پر اگرچہ عمران خان کے فیصلوں اور اُن کے رویوں کے متعلق سرگوشیاں تو کی جاتی تھیں اور اب بھی کی جا رہی ہیں لیکن عمران خان کے خلاف کوئی کھل کر نہیں بول سکتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی پہچان صرف اور صرف عمران خان ہیں اور یہ بات عمران خان خود بھی جانتے ہیں اور دوسرے تمام پارٹی رہنما بھی۔

انصار عباسی سوال اٹھاتے ہیں کہ اپنی نااہلی اور قید کے بعد عمران خان نے کسی مضبوط شخص کو پی ٹی آئی کا چیئرمین کیوں نہ بنایا اور گوہر خان جیسے نامعلوم شخص کو اس عہدے کے لیے کیوں چنا؟ بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی طاقتور شخص کو پارٹی چیئرمین شپ دینا ہی نہیں چاہتے تھے اور یہ ایک بہت سوچی سمجھی پالیسی تھی۔

انصار عباسی کے مطابق عمران خان بحیثیت وزیر اعظم جیسے پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کے کمزور وزرائے اعلیٰ کے ذریعے صوبائی حکومتوں کو اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق چلانا چاہتے تھے، اُسی طرح اب بھی وہ جیل میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف کو پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ سے باہر مکمل اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں جس کیلئے اہم ذمہ داریاں اُنہی کو دی گئیں جن کو کمزور جانا گیا اور جن کے متعلق عمران خان کا یہ گمان ہو گا کہ وہ اُن کی مرضی کے بغیر کوئی چھوٹے سے چھوٹا فیصلہ بھی نہیں کر سکتے۔ تحریک انصاف کا ناراض گروپ اگرچہ پارٹی کی موجودہ قیادت ،جو عمران خان کے قریب سمجھی جاتی ہے، پر تنقید کر رہا ہے لیکن سب کو معلوم ہے کہ جن فیصلوں پر تنقید ہو رہی ہے وہ فیصلے عمران خان کے اپنے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کیوں کسی ایسے پارٹی رہنما، چاہے جس کی کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ ہو ں، کو کوئی اہم پارٹی عہدہ یا پارلیمنٹ کے اندر اہم ذمہ داری دیں گے جو اپنی سوچ رکھتا ہو، جو عمران خان کے فیصلوں سے اختلاف کر سکنے کی سکت رکھتا ہو۔ اس سے تو عمران خان کمزور ہوں گے۔ اس سے تو یہ خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ کوئی دوسرا تحریک انصاف کو ہی ہائی جیک کر لے۔ تحریک انصاف کی منقسم قیادت یا آپس میں لڑتے ہوے رہنما تو عمران خان کیلئے خطرہ نہیں ہو سکتے نہ ہی اُن کو غیر مقبول کر سکتے ہیں لیکن کوئی دوسرا ایسا رہنما جو اپنی مرضی کے فیصلے کرنے کی سکت رکھتا ہو تحریک انصاف کی فیصلہ سازی کا اختیار اس کے حوالے کرنا،عمران خان کو کبھی قابل قبول نہیں ہو گا۔ اُنہوں نے نہ ماضی میں ایسا کیا، نہ اب کریں گے۔ پارٹی رہنما چاہے آپس میں لڑیں، عمران خان تحریک انصاف پر اپنی مضبوط گرفت کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔

Back to top button