کیا پیپلز پارٹی نون لیگ کو چھوڑ کر پی ٹی آئی کے ساتھ جائے گی؟

تحریک انصاف پر پابندی کے حکومتی اعلان کے بعد سب کی نظریں پیپلز پارٹی پر ہیں۔ سیاسی و عوامی حلقوں میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ کیا پیپلز پارٹی اور نون لیگ اتحادیوں کی طرح آگے بڑھتے ہوئے پراجیکٹ عمران کو ٹھکانے لگائیں گی یا پیپلزپارٹی پی ٹی آئی کے ساتھ ہاتھ ملا کر شہباز حکومت کو گھر بھجوائے گی؟ تاہم تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان پیپلز پارٹی حکومت گرانے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کا کسی صورت ساتھ نہیں دے گی۔

توشہ خانہ نیا ریفرنس: نیب کی اڈیالہ جیل میں عمران خان، بشریٰ بی بی سے تفتیش

سینئر صحافی و تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کے مطابق وہ نہیں سمجھتے کہ پیپلز پارٹی ہوش و حواس میں رہتے ہوئے تحریک انصاف کو موجودہ حکومت گرانے کے لیے اپنا کندھا پیش کرے گی۔ویسے بھی آج کل تحریک انصاف کا جو موڈ ہے اس سے لگتا نہیں کہ پیپلز پارٹی اس کا ساتھ دے گی۔

سینیئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ سے جب پوچھا گیا کہ کیا پیپلز پارٹی تحریک انصاف کو تحریک عدم اعتماد کی صورت میں موجودہ حکومت کو گرانے کے لیے مدد فراہم کرے گی تو ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کو وفاقی و پنجاب حکومت سے کافی اختلافات ہیں لیکن وہ مقتدرہ یعنی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی نہیں جانا چاہتے۔سہیل وڑائچ کے مطابق پیپلز پارٹی کا جو ماضی کا تجربہ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی کے نتیجے میں ان کے 2 وزرائے اعظم کو گھر جانا پڑا، ان کے لیڈروں و کارکنوں نے جیلیں کاٹیں اور کوڑے سہے تو انہوں نے بظاہر اب یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ انہیں مقتدرہ سے نہیں لڑنا۔انہوں نے مزید کہا کہ مقتدرہ اگر ن لیگ کے ساتھ ہے تو پھر پیپلز پارٹی مقتدرہ کے خلاف جاکر ن لیگ سے اتحاد نہیں توڑے گی اور وہ کیوں خود کو مشکل میں ڈالے گی۔

سینیئر صحافی و تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کے مطابق پیپلز پارٹی کا پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر ن لیگ کی حکومت گرانے پر رضامند ہونا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ویسے بھی عمران خان کسی اتحاد کے موڈ میں نظر نہیں آتے وہ بس یہی چاہتے ہیں کہ اختیار ان کے پاس ہو اور مکمل ان کے پاس ہو۔انہوں نے مزید کہا کہ بیشک تحریک انصاف کے دوسرے لیڈرز کچھ بھی کہتے رہیں لیکن جب تک عمران خان ایسے کسی اتحاد یا مفاہمت کے بارے میں فیصلہ نہیں کریں گے تو کچھ بھی نہیں ہوگا۔عاصمہ شیرازی نے مزید کہا کہ اگر عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات کریں گے تو وہ ’مائنس آرمی چیف‘ کی شرط پر کرنا چاہیں گے اور اگر وہ سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کریں گے تو اس کی شرط ’مائنس نواز و زرداری‘ ہوگی۔ ظاہر ہے ایسی شرائط ایک ڈیڈ لاک کی جانب ہی لے کر جائے گی۔ اس لئے پی ٹی آئی کے ساتھ کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کا ہاتھ ملانا ممکن نہیں۔ عاصمہ شیرازی کا مزید کہنا تھا کہ ویسے بھی عمران خان کو معلوم ہے کہ عدلیہ کی سپورٹ ان کے ساتھ ہے تو وہ سیاسی جماعتوں سے مذاکرات یا مفاہمت کی طرف نہیں جائیں گے۔ عمران خان کے ساتھ اس وقت ’جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ ہے‘ اس لیے وہ مفاہمت کی جانب نہیں جائیں گے کیونکہ عمران خان کسی مفاہمت کی بنیاد پر حکومت لینے کی بجائے پورے طمطراق کے ساتھ اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔

تحریک انصاف کا پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے شہباز حکومت گرانے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سینیئر صحافی منیب فاروق کا کہنا تھا کہ یہ حکومت اور سارا نظام ’عسکری ٹیپ‘ سے جڑا ہوا ہے اور یہ چپکانے والی پٹی جس کوڈ سے کھلتی ہے وہ حکومت کے پاس نہیں بلکہ وہیں ہے جہاں ہوتا ہے۔

پی ٹی آئی پر پابندیوں کی باتوں کے تناظر میں منیب فاروق نے کہا کہ انہوں نے اب تک صدر آصف زرداری اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری یا ایم کیو ایم کے منہ سے بھی یہ نہیں سنا کہ کسی سیاسی پارٹی پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔منیب فاروق نے کہا کہ سنہ 2018 کی عمران خان کی حکومت ’ہائبرڈ‘ تھی، پھر ’ہائبرڈ 2‘ آئی اور اب یہ موجودہ حکومت ’ہائبرڈ پرو روژن‘ ہے اس لیے لوگ جس ’تنخواہ پر سارے کام کر رہے ہیں اسی پر کرتے رہیں گے‘ ہاں اگر ارباب اختیار کی مرضی ہوگی تو پھر تو بہت کچھ بدل جائے گا جس طرح پہلے بدلتا رہا ہے۔

Back to top button