نون لیگ کا مریم نواز کے ذریعے عمرانڈو ججز کو ٹھوکنے کا فیصلہ

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں بارے درخواست میں تحریک انصاف کو نوازنےپر سپریم کورٹ کے عمراندار ججز لیگ حلقوں کی جانب سے مسلسل تنقید کی زد میں ہیں تاہم اب جہاں ایک طرف وزیر دفاع خواجہ آصف نے ملک میں کسی بڑے آئینی بحران کی پیشگوئی کر دی ہے وہیں دوسری جانب نون لیگ کی سینئر نائب صدر اور وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دینے والے ججز پر آئین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے انھیں وارننگ دے دی ہے مریم نواز کا کہنا ہے کہ عدلیہ میں موجود فساد پارٹی کو ریلیف دینے والے عناصر باز نہ آئے تو ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کے دھمکی آمیز خطاب نے ملکی سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ سیاسی تجزیہ کار مریم نواز کے بیان کو عدلیہ کے خلاف نون لیگ کی جارحانہ حکمت عملی کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔

عطا الحق قاسمی کی نواز شریف کو سامنے آ کر پاکستان بچانے کی اپیل

 سینئر تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کا کہنا ہےکہ میرا خیال ہے کہ حکومت پینک نہیں کررہی بلکہ باقاعدہ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت جارحانہ حکمت عملی اپنانے جا رہی ہے، یہ بہت سوچی سمجھی اسکیم ہے اس میں نہ شہباز شریف آگے آئے ہیں نہ فی الحال میاں نواز شریف آگے آئے ہیں، لگتا ہے کہ مریم نواز کو سامنے کیا گیا ہے یا وہ خود سامنے آئی ہیں اور اب وہ عدلیہ مخالف بیانیہ لے کرآگے چلیں گی، تاہم یہ حقیقت ہے کہ عدلیہ کو بھی اس آئین کی اسی طرح سے پاسداری کرنی ہے جس طرح سے پاکستان کی فوج کو کرنی ہے۔

سینئر تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہاکہ میرا خیال ہے کہ دو گروپس دو اداروں کے ساتھ جڑ گئے ہیں اور وہ پراکسیز بن گئے ہیں، اسی طرح سے جو سیاسی گروپس ہیں، اب ایک گروپ یہ چاہتا ہے کہ سیاسی لوگ آگے آکر ان ساری چیزوں کی اونرشپ لیں کیونکہ اس وقت اگر اسٹیبلشمنٹ کو دیکھا جائے تو وہ بالکل فور فرنٹ پر تحریک انصاف کی تمام بندوقوں کے سامنے کھڑی ہے، ایک طرح سے مسلم لیگ نواز پر دباؤ بھی بے تحاشہ ہے کہ وہ اس پوری صورتحال کو اون کرے اور ایک سیاسی بیانیہ بنانے کی کوشش کرے تاہم دوسری طرف عمران خان بھی کافی مظلوم نظر آتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ بھی آرمی چیف کے علاوہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتے، وہ سیاسی لوگوں غیر معتبر تصور کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ بات ہو، وہ خود کو سب کی نفی سمجھتے ہیں کہ یا وہ رہیں گے یا میں رہوں گا، اس سارے عمل میں صورتحال بہت پیچیدہ ہوگئی ہے۔ عاصمہ شیرازی کے مطابق الیکشن کمیشن نے بنیادی طور پر آج باتوں ہی باتوں میں اپنی ان ہاؤس کارروائی کو پبلک کر کے پوچھ لیا ہے کہ ہم تو عمل کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں بتائیں، کون کون سے ایسے مسائل ہیں جدھر ہمیں عدالت سے رہنمائی لینی چاہئے، نارمل حالات میں تو ان کے سوالات بہت جینوئن ہیں کہ اگر قانون میں لکھا ہوا ہے کہ کسی آدمی کی پارٹی نے کوئی ٹکٹ جاری نہیں کیا تو جیت پر صرف پی ٹی آئی کے ساتھ وابستگی تو کافی نہیں ہوگی کہ جیتنے پر اس شخص کو وابستگی والی پارٹی کا رکن سمجھا جائے۔ عاصمہ شیرازی کے مطابق  ایک حلقے میں بہت سارے لوگ ہیں جو پی ٹی آئی سے وابستہ ہوں گے تو ہر بندہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں پارٹی کا امیدوار ہوں۔ پارٹی کا امہدوار وہی ہو گا جسے پارٹی ٹکٹ جاری کرے گی۔تاہم قانونی طور پر تحریکانصاف ٹکٹ جاری نہیں کر سکتی تھی تو ایسے میں ازاد جیتنے والے امیدوار پی ٹی آئی کے کیسے سمجھے جا سکتے ہیں، اسی طرح جو دوسرے 41 امیدوار ہیں یا ایم این ایز ہیں انہوں نے تو اپنی وابستگی بھی ظاہر نہیں کی،تو سپریم کورٹ نے انھیں پی ٹی آئی کا کیسے تصور کر لیا۔ عاصمہ شیرازی کے مطابو قانون کے مطابق آزاد امیدوار کیلئے کسی پارٹی میں شمولیت کیلئے تین دن کا ٹائم ہوتا ہے اس دوران وہ سنی اتحاد کونسل میں چلے گئے ہیں، اب عدالت کہہ رہی ہے کہ ان کو واپس بھیجیں، اب واپس بھیجنے کیلئے بھی کوئی طریقہ کار تو وضع کرنا پڑے گا۔ جو سپریم کورٹ نے وضع تو کر دیا لیکن آئین یا قانون میں ایسا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ اسی وجہ سے حکومتی جماعت سپریم کورٹ کے فیصلے کو ہدف تنقید بنا رہی ہے۔

تاہم سینئر تجزیہ کارسہیل وڑائچ کے مطابق سپریم کورٹ چونکہ سب سے سپریم باڈی ہے اس کا جب فیصلہ آجاتا ہے تو پھر چوں چرا کی گنجائش نہیں ہوتی، مجھے تو کوئی سانحہ ہوتا نظر آرہا ہے، وہ سانحہ کیا ہوگا کس شکل میں ہوگا یہ تو مجھے نہیں اندازہ، لیکن جب لڑائی ہوتی ہے تو یہ پتا نہیں ہوتا کہ میرا مکا اس کی آنکھ میں لگے گا یا اس کے دل پر جاکر لگے گا، یا اس کا مکا مجھے کہاں لگے گا، سہیل وڑائچ کے مطابق چاہے ہماری اسٹیبلشمنٹ ہو یا اتحادی حکومت، ان کی لمٹ اس وقت ختم ہوگئی جب یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا، سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے یہ اپنے دلائل دیتے، لوگوں کو قائل کرتے لیکن اب انھیں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کرنا ہو گا۔

تاہم سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر اور خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ مخصوص نشستوں کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہوئی، اسے توڑا اور پامال بھی کیاگیا ہے اور فیصلہ دینے والے ملک میں بحران، ابہام اورکنفیوژن پیدا کرکے تفریحی دورے پر نکل گئے ہیں ، عرفان صدیقی کے مطابق ایسا اس لئے کیاگیا ہے کہ تفریحی دورہ مکمل ہونے تک ملک، معیشت، پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن سب لٹکے رہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے مزید کہاکہ خواجہ آصف نے آئینی میلٹ ڈاؤن کی بات اپنے سیاسی تجربے، تجزیے اور اندازے کی بنیاد پر کی ہے،کوئی خبر نہیں دی۔

Back to top button