صدر ٹرمپ نے دوسری مرتبہ امریکی عوام کو ماموں کیسے بنایا؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار روف کلاسرا نے کہا ہے کہ امریکی صدر منتخب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے پوری امریکی قوم کو عظیم بنانے کا نعرہ دے کر دوسری مرتبہ صدارت جیت لی، لیکن امریکیوں نے موصوف سے ایک بار بھی نہیں پوچھا کہ ہم کب عظمت کے مینار سے نیچے گرے تھے جو دوبارہ اوپر چڑھنے کی ضرورت پڑ گئی ہے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کلاسرا کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے بعد جو تقریر کی اسے سنتے ہوئے احساس ہوا کہ ہم انسان قدرت کی بنائی ہوئی ایک دلچسپ پروڈکٹ ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح اپنے بارے انسان ایسے ایسے گمان پال لیتا ہے کہ بعض اوقات حیرانی ہوتی ہے کہ وہ کس حد تک خود فریب ہو سکتا ہے۔ انسان کے بارے جتنا جانتے جائیں ہر دفعہ یہی لگتا ہے کہ ابھی بہت کم جان پائے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پچھلے دس برسوں میں جتنی سائنسی ترقی ہوئی ہے وہ شاید پچھلے دس ہزار سال میں بھی نہیں ہوئی ہو گی۔
خیر بات انسانی ذہن سے شروع ہوئی تھی کہ یہ کیا عجیب چیز ہے اور انسان خود کو دیوتا سمجھنے لگ جاتا ہے۔ اس کا ذہن اس کی شخصیت کو فریم کرتا ہے۔ اسے لگتا ہے وہ دوسروں سے افضل اور برتر ہے۔ چلیں خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنا بھی شاید انسانی جبلتوں میں سے ایک ہے۔ اپنے بارے ایسا سمجھنا کہ قدرت نے اسے فارغ لمحات میں بیٹھ کر تخلیق کیا تھا اور اسے کسی اہم مقصد کے لیے اس دنیا میں بھیجا گیا تھا کیونکہ وہ دوسروں سے بہت بہتر اور مختلف ہے۔
روؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ یہ بات آپ نے زندگی میں کئی دفعہ سنی ہو گی کہ مجھے خدا نے فلاں جگہ حادثے سے بچا لیا‘ تو مطلب مجھ سے خدا کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے۔ اگر انسان ایسا خود نہ بھی سوچ رہا ہو تو بھی قریبی خوشامدی اسے ہر لمحے یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ خدا اس سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے۔ انسانوں کی آٹھ ارب کی آبادی میں سے اس سے ہی اکیلے وہ کام لینا مقصود ہے۔ یوں وہ بندہ خود کو یقین دلا دیتا ہے کہ واقعی خدا اس سے بڑا کام لینا چاہتا ہے۔ اور بعض دفعہ اسے خود سمجھ نہیں آرہی ہوتی کہ وہ کون سا بڑا کام ہے جو خدا نے اس سے لینا ہے۔ حتیٰ کہ اس کے قریبی لوگ‘ جنہوں نے اسے بانس پر چڑھایا ہوتا ہے کہ وہ کسی بڑے مقصد کے لیے پیدا ہوا ہے یا اس کی جان بچنے کی وجہ وہ بڑا مقصد ہے جو اس نے پورا کرنا ہے‘ انہیں بھی اس بڑے مقصد کا علم نہیں ہوتا۔ بس وہ سب اس انسان کی انا کو پروان چڑھاتے رہتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی بڑا کام تو خدا نے لینا ہے۔
کلاسرا کے بقول یوں اس انسان کی نرگسیت پسندی آسمان کو چھونے لگتی ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو آپ امریکی صدر ٹرمپ کی صدارت کا حلف لیتے وقت کی تقریر سن لیں جس میں وہ خود کو امریکہ کی ڈھائی سو سالہ جمہوری تاریخ کا سب سے بڑا صدر قرار دے رہا تھا۔ اس کی لہجے سے لگتا تھا کہ ابراہم لنکن اور جارج واشنگٹن تک اس کے سامنے کچھ نہیں۔ موصوف کا کہنا تھا کہ اگر خدا نے دو قاتلانہ حملوں میں اس کی جان بچائی ہے اور وہ دوسری مرتبہ چار سال کے لیے صدر بنا تو اس سے وہ کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے۔ اب یہ وہ مِتھ ہے جس پر عام انسان فوراً ایمان لے آتا ہے کہ واقعی دیکھو یار گولی کان چھو کر گزر گئی۔ ماتھے پر بھی لگ سکتی تھی۔ اگر خدا نے بچا لیا تو مطلب واقعی کوئی بڑا کام لینا ہے اور یوں بڑی تعداد میں لوگ ایسے بندے کو مافوق الفطرت سمجھ لیتے ہیں۔ اس غیرمعمولی بندے کو ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ یا تو وہ جس مذہب کا پیروکار ہے اسے نئی زندگی دے کر عظیم تر بنائے گا یا پھر اسکے ملک اور قوم کو عظیم تر بنائے گا۔
رووف کلاسرا کہتے ہیں کہ آپ انسانی تاریخ پڑھ لیں، اکثر لوگ جنہوں نے انسانوں پر حکمرانی کی انہوں نے مذہب‘ قوم اور وطن کی برتری اور عظمت کا جھنڈا اٹھایا۔ مذہب اور وطن وہ دو چیزیں ہیں جن کے لیے عام انسان اپنی جان دینے پر تُل جاتا ہے اور جنہوں نے عوام پر حکمرانی کرنی ہو وہ ہمیشہ مذہب اور وطن کی عظمت کا نعرہ لگاتے ہیں اور کبھی مایوس بھی نہیں ہوتے۔ یقین نہیں آتا تو ٹرمپ کو دیکھ لیں جس نے پوری امریکی قوم کو عظیم بنانے کا نعرہ دے کر ماموں بنایا اور دوسے بار صدارت جیت لی۔ امریکیوں نے ایک مرتبہ بھی اس سے نہیں پوچھا کہ پہلے ہم کب عظمت کے مینار سے نیچے آ گئے تھے کہ دوبارہ اوپر چڑھنے کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ لیکن وہی بات کہ عام انسانی ذہن کو جو چیز اپیل کرتی ہے وہ دوسروں سے اعلیٰ‘ برتر‘ منفرد اور عظیم ہونے کا خبط ہے اور پھر ان عام انسانوں میں جو زیادہ ذہین اور چالاک ہوتے ہیں وہ انہیں عظمت کا خواب دکھا کر ان پر ہی حاکم بن بیٹھتے ہیں۔