فیض حمید سے پہلے کن فوجی افسران کے خلاف کارروائی ہوئی؟

پاک فوج کا ڈسپلنڈ اور منظم ادارہ ہمیشہ اپنے اندر سخت احتساب کے میکنزم کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اس کی مثال ماضی میں ہمیں بارہا ملتی رہی ہے ۔ ماضی قریب میں 9 مئی کے واقعات کے بعد بھی پوری قوم نے دیکھا کے کیسے فوج کا یہ اِحتساب کا کڑا عمل حرکت میں آیا اور انتہائی سرعت کے ساتھ چند ہی دنوں میں متعلقہ اور ذمہ دار لوگوں کو سزائیں سنا دی گئیں۔اِسی طرح پہلے بھی کئی سینئر افسران کو آرمی رولز اور کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں دی جا چکی ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی اِسی سلسلے کی کڑی ہے۔

جنرل فیض حمید کے کالے کرتوت جو اُن کے زوال کا سبب بنے؟

 سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کی گرفتاری اور ان کا کورٹ مارشل کر لے فوج نے ایک بار پھر واضح طور پر ثابت کر دیا ہے کے کوئی بھی شخص چاہے وہ کتنے ہی اونچے عہدے پر کیوں نا ہو، قانون سے بالا تر نہیں اور دوسری بات یہ کہ پاک فوج کا احتسابی عمل بہت شفاف اور کڑا ہے جو فوری حرکت میں آ کر حقائق اور ثبوتوں کی روشنی میں، معاملات کو قانون کے مطابق سختی کے ساتھ نپٹاتا ہے۔ ماضی میں بھی فوج کے اندر خود احتسابی کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) اسد درانی نے انڈین خفیہ ادارے را کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ مل کر ایک کتاب لکھی تھی جس میں پاکستانی حکام کے بقول ایسا مواد بھی شامل تھا جو کہ پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق ہے۔سپائی کرانیکلز کے مصنف جنرل اسد درانی کو 25 سال قبل فوج سے بے دخل کیا گیا تھا۔ اصغر خان کیس میں ان کا نام آنے کے بعد انھیں آئی ایس آئی سے جی ایچ کیو بلوا لیا گیا تھا اور پھر جب دوبارہ یہ سامنے آیا کہ وہ سیاسی امور میں مداخلت کر رہے ہیں تو انھیں قبل از وقت ریٹائر یعنی فوج سے فارغ کر دیا گیا تھا۔سپائی کرانیکلز کتاب کی اشاعت کے بعد پاک فوج نے انھیں جنرل ہیڈکوارٹرز یعنی جی ایچ کیوطلب کیا اور ان کے خلاف ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس انکوائری کے بعد انہیں فوجی ضابطوں کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا گیا، جس کے نتیجے میں ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کیا گیا اور ان کی ریٹائرمنٹ کی تمام مراعات بھی واپس لے لی گئیں۔

2012 میں لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال جو کہ پاکستان آرمی کے ایک سینئر افسر تھے، ان پر جاسوسی کے الزام میں کورٹ مارشل کیا گیا اور 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ ان پر آئی ایس آئی کی اہم معلومات انڈین خفیہ ایجنسی را کو فراہم کرنے کا الزام تھا۔سابق فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ نے مئی 2019 میں لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کو سنائی گئی قید بامشقت کی سزا کی توثیق کی تھی تاہم ڈھائی برس کے ہی عرصے میں ہی انھیں رہا کر دیا گیا ہے۔

2011 میں بریگیڈیئر علی خان کو شدت پسند تنظیم حزب التحریر کے ساتھ روابط رکھنے کے الزام میں کورٹ مارشل کیا گیا۔ ان پر پاکستان آرمی کے اندر بغاوت پھیلانے کا بھی الزام تھا۔

لیفٹیننٹ جنرل ضیا الدین بٹ حاضر سروس ڈی جی آئی ایس آئی جنھیں نواز شریف نے آرمی چیف تعینات کیا تھا، جنرل پرویز مشرف کے حکم پر انھیں گرفتار کرکے ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی ہوئی۔ بعد میں انھیں نظربند کیا گیا اور فوجی عہدے سے برخاست کردیا گیا۔آرمی نے بطور ادارہ جنرل ضیاالدین بٹ کے بارے میں تین انکوائریاں کرائیں مگر بعدازاں انھیں ان الزامات سے بری کر دیا گیا کہ وہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرنے کی وزیراعظم کی منصوبہ بندی یا ’سازش‘ کا حصہ تھے۔

 جنرل ایوب خان کے دور میں 1958 میں بریگیڈیئر نیاز کو سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور حکومت کے خلاف سازش کرنے کے الزام میں کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا۔

1997 میں نیوی کے سربراہ ایڈمرل منصورالحق کی بیرون ملک سے دفاعی سامان کی خریداری میں ککس بیک پر گرفتاری ہوئی اور نیب کے ساتھ پلی بارگین کے بعد 17 اپریل2001 کو انہیں رہا کردیا گیا۔

بریگیڈیئر رضوان کا غیر ملکی اداروں کے ساتھ روابط پر کورٹ مارشل ہوا اور14 سال کی سزا سنائی گئی۔ میجر جنرل ظہیر الاسلام کے خلاف سیاچن میں ضابطہ فوجداری کے تحت کارروائی کی گئی اور انہیں 30 جولائی 1995 کو فوج سے برطرف کر کے تمام مراعات واپس لے لی گئیں۔

آرمی انجینیئر کرنل شاہد کا شمسی ایئربیس پر جاسوسی کے الزام میں کورٹ مارشل ہوا اور انہیں فوج سے نکال دیا گیا۔ میجر جنرل تجمل حسین کا کورٹ مارشل ہوا اور انہیں 1995 میں 14 سال کی سزا ہوئی۔ بغاوت کیس میں بریگیڈیر مستنصر بلا اور اور چار افسران کا کورٹ مارشل ہوا، انہیں 14 سال کی سزا ہوئی اور تمام مراعات اور پنشن ضبط کر لی گئی۔

حال ہی میں سابق کور کمانڈر ایمن بلال پر سیاسی الزامات لگے لیکن ان کو جبری ریٹائرڈ کردیا گیا، اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی ہوئی۔ اس کے بعد حال ہی میں فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے کے الزام میں سابق لیفٹیننٹ کرنل اکبر حسین، میجر( ر) عادل راجہ اور حیدر مہدی کا کورٹ مارشل ہوا اور انہیں 14 سال کی سزا سنائی گئی، اور پاکستان میں ان کی تمام جائیداد ضبط کرلی گئی۔

اسی طرح 9 مئی کے واقعے میں غفلت برتنے پر تقریباً 15 افسران کے خلاف کارروائی ہوئی جس میں سابق کور کمانڈر لاہور، دو میجر جنرل، پانچ بریگیڈیئر اور کرنل ، میجر بھی شامل تھے۔

اب ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سکیم سکینڈل سمیت مختلف الزامات کے تحت سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کی گرفتاری عمل میں آ چکی ہے جبکہ ان کیخلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے تاہم اب وقت بتائے گا کہ فوجی عدالت ان کو کیا سزا سنائی ہے۔

Back to top button