جنرل فیض حمید کے کالے کرتوت جو اُن کے زوال کا سبب بنے؟

ملک کی سیاسی و معاشی تباہی اور امن و امان کے بحران میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ جنرل فیض حمید پر فوج کو بغاوت پر اکسانے کا سنگین ترین الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے، پراجیکٹ عمران کی لانچنگ سے لے کر 2018 کے الیکشن میں دھاندلی اور عمران خان کے دور اقتدار میں جنرل فیض حمید نے آئین شکنیوں کی نئی تاریخ رقم کی۔

جنرل فیض نے ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی پر قبضے کی کوشش کیسے کی؟

فیض حمید کو فوجی اسٹیبلشمینٹ کے اس پرو عمران خان دھڑے کا رنگ لیڈر قرار دیا جاتا ہے جس نے آخری لمحے تک جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بننے سے روکنے کے لیے کوششیں کیں اور تمام تر منفی ہتھکنڈے استعمال کیے۔ فیض حمید پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ وہ بطور کور کمانڈر پشاور ہٹائے جانے کے باوجود اس وقت کی پی ڈی ایم حکومت کےخلاف سازشی کارروائیوں سے باز نہ آئے اور مسلسل عمران خان کو برسرا اقتدار لانے کے منصوبے میں انکی مدد کرتے رہے ۔فیض حمید مسلسل جنرل باجوہ کی جگہ نیا آرمی چیف بننے کی تیاریوں میں مصروف تھے لیکن ان کا یہ خواب عمران خان کی اقتدار سے رخصتی کے باعث شرمندہ تعبیر نہ ہو پایا۔

لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کا شمار پاکستان کی تاریخ کے آئی ایس آئی کے طاقتور ترین لیکن متنازع سربراہان میں ہوتا تھا۔ آئی ایس آئی کے ڈی جی بننے سے قبل وہ اسی ایجنسی میں ڈی جی سی کے انتہائی اہم اور بااثر عہدے پر فائز تھے۔لیفٹننٹ جنرل ( ر ) فیض حمید 2019 سے 2021 تک آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔ تاہم وہ اس وقت عالمی منظرنامے پر نمایاں ہوئے جب 2021 میں افغانستان سے امریکی اور مغربی افواج کے انخلا کے بعد طالبان کے زمام اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد وہ کابل کے ایک ہوٹل کی لابی میں چائے پیتے ہوئے فلمائے گئے۔

آئی ایس آئی کے دیگر سربراہان کے برعکس جنرل فیض حمید اپنی پرموشن کے بے حد شوقین تھے اس لئے وہ ہمیشہ شہ سرخیوں میں رہنا پسند کرتے تھے۔ اسی لئے وہ دیگر آئی ایس آئی سربراہان کے برعکس تشہیر سے گریز نہیں کرتے تھے۔ جنرل فیض حمید کو سابق وزیراعظم عمران خان کے قریب سمجھا جاتا تھا، تاہم بانی پی ٹی آئی سے ان کے قریبی تعلق کو اس وقت سول اور ملٹری تعلقات میں تناؤ کی اہم وجہ خیال کیا جاتا تھا۔کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ جنرل فیض حمید کی گرفتاری اور بعدازاں کورٹ مارشل عمران خان کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے کیونکہ اب انہیں مزید مقدمات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

عمران خان سے قریبی تعلق کی وجہ سے یہ بھی کہا جاتا تھا،  کہ عمران خان نومبر 2022 میں جنرل ( ر ) قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل  فیض حمید کو اگلا آرمی چیف مقرر کرنا چاہتے تھے تاہم وہ ایسا نہ کر سکے۔تاہم ایک وقت میں چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے کے مضبوط امیدوار رہنے والے جنرل ( ر ) فیض حمید نے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے چند ماہ بعد ہی قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی

آرمی چیف کے بعد آئی ایس آئی چیف کو عام طور پر پاکستان میں سب سے طاقت ور فوجی افسر سمجھا جاتا ہے۔فیض حمید کا دور اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ اور موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی اچانک برطرفی کے بعد آیا کیونکہ مبینہ طور پر جنرل عاصم منیر عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور قریبی ساتھی فرح گوگی کے کرپشن میں ملوث ہونے کے ثبوت سامنے لائے تھے۔

خیال رہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی میں پہلے بطور ڈی جی سی اور پھر ڈی جی کے طور پر ادوار تنازعات کا شکار رہے ہیں۔مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی سمیت کئی سیاسی جماعتوں نے متعدد بار فیض حمید پر سیاست میں مداخلت، دباؤ ڈالنے اور پاکستان تحریک انصاف کی حمایت جیسے الزامات عائد کیے تھے۔

پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں ان کی آئی ایس آئی سے ٹرانسفر پر عمران خان اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ میں بھی اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ کئی مہینے تک چلنے والے اس تنازع کے بعد لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور لگا دیا گیا۔ان کی آخری پوسٹنگ بطور کور کمانڈر بہاولپور تھی لیکن جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے کے بعد انہوں نے اپنی ملازمت کی مدت ختم ہونے سے چھ مہینے قبل ہی ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔

مبصرین کے مطابق تحریک لبیک پاکستان نے نومبر 2017 میں فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا تھا، اس دھرنے کے باعث ملک بھر میں سیاسی عدم استحکام بڑھا تھا، بعد ازاں جب ایک معاہدے کے ذریعے دھرنا ختم کیا گیا تو اس معاہدے کی تحریر میں با وساطت میجر جنرل فیض حمید لکھا ہوا تھا، اس معاہدے کے بعد جنرل (ر) فیض حمید کا نام عوام کے سامنے آیا۔فیض آباد دھرنا کیس کے عنوان سے سپریم کورٹ میں کیس بھی چلا، جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف انکوائری بھی کی گئی تاہم تمام اسٹیک ہولڈرز کے جوابات کی روشنی میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو کلین چٹ دے دی گئی اور پنجاب حکومت کو ذمے دار قرار دے دیا گیا۔

 بعد ازاں 2018 کے انتخابات میں بھی آر ٹی ایس سسٹم بٹھانے اور عمران خان کو دھاندلی سے جتوانے کا الزام بھی فیض حمید پر عائد ہوا تھا۔ جب نواز شریف کو بطور وزیراعظم سپریم کورٹ نے نا اہل کردیا تو انکی اپیل مسترد کروانے کے لیے بھی فیض نے ججوں پر دباؤ ڈالا۔ اس دوران جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فیض کے اپنے گھر آنے اور نواز شریف کی اپیل مسترد کروانے کے لئے دباؤ ڈالنے کا انکشاف کیا تو فیض نے جسٹس ثاقب نثار کے ذریعے انکی بطور جج چھٹی کروا دی تھی۔

جنرل (ر) فیض حمید پر سیاست میں مداخلت اور سیاسی رہنماؤں کو پاکستان تحریک انصاف میں شامل کرانے پر زور دینے کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے، مریم نواز نے گزشتہ سال ایک انٹرویو میں جنرل (ر) فیض حمید کے کورٹ مارشل کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنرل (ر) فیض حمید نے 2 سال مسلم لیگ ن کی حکومت کو ختم کرنے اور 4 سال عمران خان کی حکومت کی حمایت کے ذریعے ملک کو تباہ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس لئے انھیں ایسی عبرتناک سزا دینی چاہیے تاکہ باقی فوجی افسران اس سے سبق حاصل کریں۔ تاہم اب نہ صرف وہ فوجی حراست میں ہیں بلکہ ان کا کورٹ مارشل بھی شروع ہو چکا ہے۔ جس کے بعد لگتا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے لانچ کئے گئے پراجیکٹ عمران کو اس کے سہولتکاروں سمیت لپیٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

Back to top button