فوج اور عدلیہ کا اتحاد ٹوٹنے سے سیاستدانوں کو فائدہ ہوا یا نقصان ؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے کہا ہے کہ پاکستانی سیاست میں فوج اور عدلیہ کا ساتھ معروف کلاسیکی گائیک برادران، استاد نزاکت علی اور استاد سلامت علی جیسا ہے کیوں کہ ایک کے بغیر دوسرا نا مکمل اور ادھورا تصور کیا جاتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں فوج اور عدلیہ کا ساتھ بھی بالکل ویسا ہی تھا اور دونوں ایک جوڑی کی طرح مل کر چلتے تھے۔ مثال کے طور پر آرمی چیف مارشل لا لگاتا تھا تو چیف جسٹس اسے جائز قرار دے دیتا تھا۔ پھر کسی منتخب وزیر اعظم کو نکالنا ہوتا تو بھی دونوں بھائی مل کر سازش کرتے۔ فوج کیس تیار کرتی اور عدلیہ اس کی بنیاد پر وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیتی۔ نااہلی کے خلاف اپیل دائر کی جاتی تو نہ صرف کیس ڈس مس ہو جاتا بلکہ وزیراعظم کو جیل میں ڈال دیا جاتا۔ تاہم اب یہ صورت حال بدلتی دکھائی دیتی ہے جس کی بنیادی وجہ عدلیہ کا دو دھڑوں میں تقسیم ہو جانا ہے۔ اسی وجہ سے آج آرمی چیف اور چیف جسٹس حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں جب کہ ماضی میں جنرل فیض حمید کی زیر نگرانی فیصلے دینے والے عمراندار ججز کا ایک بڑا دھڑا آج بھی تحریک انصاف کا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھا رہا ہے اور عمران خان کو مسلسل ریلیف مل رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ استاد نزاکت علی اور استاد سلامت علی جیسی عدلیہ اور فوج کی پرانی جوڑی ٹوٹنے سے دونوں کمزور ہوئے ہیں اور دونوں کا نقصان ہوا ہے۔ یہ اور بات کہ سیاست دان بھی عدلیہ اور فوج کے اس نفاق سے فائدہ اٹھانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو پائے۔

معروف لکھاری اور تجزیہ کار حماد غزنوی اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ ہماری کلاسیکی موسیقی کی روایت میں دو بھائیوں استاد نزاکت علی خان اور استاد سلامت علی خان کی جوڑی ہر لحاظ سے لاجواب سمجھی جاتی تھی۔ خیر، پھر یوں ہوا کہ کسی معمولی خاندانی رنجش کی بنا پر نزاکت اور سلامت کی جوڑی ٹوٹ گئی، اس کے بعد سلامت علی خان نے اپنے بیٹوں شرافت اور شفقت کے ساتھ جوڑی بنانے کی بہت کوشش کی مگر بات کچھ بنی نہیں۔ ایک مرتبہ نزاکت علی خان بارے کسی نے سوال کیا تو سلامت علی خان کہنے لگے کہ وہ میرا گول کیپر تھا، اُس کی موجودگی میں میں بے خوف ہو کر کھیلتا تھا، وہ راگ کی حفاظت کرتا تھا، وہ بنیاد کی نگہبانی کا فریضہ انجام دیتا تھا، میں میدان کا چکر لگا کر لوٹتا تو میرا گول کیپر مستعد کھڑا ہوتا تھا۔ لہٰذا یہ سچ ہے کہ نزاکت علی خان کے بغیر سلامت علی خان جیسا ’مکمل گویا‘ بھی ادھورا رہ گیا۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ ریاستِ پاکستان میں بھی کچھ ایسا ہی واقعہ رونُما ہوا ہے، نزاکت اور سلامت کی جوڑی ٹوٹ گئی ہے، سلامت کا گول کیپر اپنی جگہ سے ہٹ گیا ہے، سلامت نئی جوڑی بنانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، مگر بات کچھ بن نہیں پا رہی، نتیجہ یہ ہے کہ استاد سلامت جیسا ’مکمل گویا‘ ادھورا ادھورا دکھائی دیتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کی 1958 میں جب پہلا ناگ راگ پیش کیا گیا تب گول کیپر کے فرائض جسٹس منیر انجام دے رہے تھے اور اونچے سروں میں گنگنا رہے تھے، 1977 میں جب ضیاالحق نے اپنے راگ الاپنے کا آغاز کیا تو ان کے گول کیپر جسٹس انوارالحق تھے۔ 1999 میں جب مشرف نے کمانڈو راگ کا تو ان کے گول کیپر جسٹس ارشاد حسن خان تھے۔ باجوہ اور فیض صاحبان کو بھی ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، اور عطا بندیال جیسے مستعد میراثی گول کیپر میسر تھے۔

جرنیل، ججز، حکومت اور اپوزیشن اپنی ہی جڑیں کیسے کاٹ رہے ہیں؟

حماد کہتے ہیں کہ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ نزاکت سلامت کی جوڑی نے مل کر اس ملک کو دہائیوں تک ’کامیابی‘ سے چلایا ہے، مگر پھر ایک ’خاندانی تنازع‘ کے نتیجے میں بھائیوں کی یہ جوڑی ٹوٹ گئی، بات یہ ہے کہ جب جوڑی میں سے کسی ایک کے دل میں یہ آ جائے کہ اصل گویا تو میں ہوں اور میرے بغیر دوسرا کچھ بھی نہیں، تو پھر جوڑیاں ٹوٹ جایا کرتی ہیں، اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مکمل گویا بھی ادھورا رہ جاتا ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ریاست کے نزاکت سلامت ایک دوسرے کی ناک خاک آلود کرنے کی سعی میں ہمہ وقت مصروف ہیں، انہوں نے اپنے اپنے لشکر منظم کر لیے ہیں، اداروں سے سیاسی جماعتوں تک، ہر جگہ سے ان دو لشکروں کو کمک فراہم ہو رہی ہے، شوقِ تیغ بازی فزوں تر ہوتا جاتا ہے، چونچیں گم ہو چکی ہیں، دُمیں کٹ چکی ہیں، اور شمشیریں اب گردنوں کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ آئینی ترامیم کے معاملے کو اسی پس منظر میں دیکھنا ہو گا۔ سُرعت سے ترامیم منظور کروانے کی خواہش رکھنے والوں کو سُبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے، مگر کیا ترمیم پسند نچلے بیٹھ جائیں گے، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ایک جھڑپ میں پسپائی سے جنگ کا فیصلہ نہیں ہوا کرتا، اور جو اصحاب فریقین کی نفسیات سے واقف ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ پلٹ کر جھپٹیں گے، اور اس وقت تک جھپٹتے رہیں گے جب تک دشمن کو زیر نہیں کر لیتے یا خود پامال نہیں ہو جاتے۔

حماد غزنوی کے مطابق آئینی ترامیم کے حوالے سے اتنا کہنا ضروری ہے کہ ریاستی ڈھانچے میں کچھ برسوں سے عدالتیں یک سر بے مہار ہو چکی ہیں، وہ سرے سے کسی چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو نہیں مانتیں، کروڑوں لوگوں کی نمائندہ پارلیمان کے پاس کیے ہوئے قانون پر دوچار جج کاٹا لگا دیتے ہیں، آئین کی تشریح تک رہنے کے بجائے خود ہی آئین لکھنے بیٹھ جاتے ہیں، حتیٰ کہ منتخب وزیرِ اعظم کو کان سے پکڑ کر حکومت سے نکال دیتے ہیں۔ ترامیم کی جزیات پر اختلاف ہو سکتا ہے مگر عدلیہ کے ان امراض کا علاج ضروری ہے۔ اکثر دوست ترامیم کی ٹائمنگ، مسودے کو خفیہ رکھنےاور حکومتی عجلت کے حوالے سے سوال اٹھا رہے ہیں۔ حالتِ امن میں یہ تمام اعتراضات معقول گنے جائیں گے، مگر میدانِ جنگ میںیہ سوال سادہ لوحی کے باب میں رقم کرنا پڑیں گے۔ جنگ میں جب تیر چلتا ہے اور آپ کے سینے کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے تو فوراً ڈھال سامنے کی جاتی ہے، اسی کو پرفیکٹ ٹائمنگ کہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ دو مہینوں سے اوپر ہوگئے اور مخصوص نشستوں پر آٹھ ججوں کا تفصیلی فیصلہ آج تک غائب ہے، سوال یہ ہے کہ کس نے طے کی یہ ٹائمنگ؟ اسی فیصلے کی ایک وضاحت پچھلے ہفتے مجوزہ ترامیم سے ایک دن پہلے جاری کی گئی، کس نے طے کی یہ ٹائمنگ؟ اور اس وضاحتی فیصلے کو اس قدر خفیہ رکھا گیا کہ اسے پہلے نہ کاز لسٹ میں شامل کیا گیا، نہ فریقین کو بلا کر سنا گیا، تمام قوانین توڑکر، انتہائی عجلت میںیہ واردات کیوں ڈالی گئی، کس نے طے کی یہ ٹائمنگ؟

حماد کہتے ہیں کہ یاد رہے کہ جب نزاکت سلامت کی جوڑی ٹوٹ گئی تھی تو اس کے کچھ ماہ بعد ہی استاد نزاکت علی خان وفات پا گئے، اور استاد سلامت علی خان کو لقوہ ہو گیا اور وہ دوبارہ کبھی پہلے کی طرح نہ گا سکے۔

Back to top button