مولانا حکومت کا ساتھ دینے کی کمٹمنٹ دے کر بدل کیوں گئے

مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے تحریک انصاف کا ساتھ دیتے ہوئے حکومت کے آئینی ترامیم کے پیکج کو مسترد تو کر دیا گیا ہے لیکن حکومتی حلقوں کا دعوی ہے کہ اس بارے ابھی مذاکرات جاری ہیں اور آئینی ترامیم کے نئے پیکج پر اتفاق رائے ہونے کا قوی امکان موجود ہے۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے دوران مولانا فضل الرحمٰن نے واضح طور پر حکومتی ٹیم کو بتایا تھا کہ وہ ججز کی تقرری کا اختیار ججز کو دینے کے حق میں نہیں اور موجودہ سسٹم کو بدلنا چاہتے ہیں۔ سینٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومتی ٹیم سے مذاکرات کے دوران انہیں یاد دلایا تھا کہ میں نے آئین میں انیسویں ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دیا تھا جس کے ذریعے افتخار چودری کے دور میں ججوں کی تقرری کا اختیار پارلیمنٹ سے لے کر ججز کو دے دیا گیا تھا۔ مولانا کی اسی گفتگو کے بعد مجوزہ آئینی ترامیم پاس کروانے کے لیے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس بلائے گئے تھے، تاہم موصوف اخری وقت پر بہانہ بنا کر نکل گئے۔

 آئینی ترامیم کے پیکج کی منظوری کے لیے بلائے گئے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس منسوخ کیے جانے کے بعد حکومت کی قانونی ٹیم کو نا لائقی اور نا اہلی کے طعنے دیے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب حکومتی وزراء اس ناکامی کے بعد میڈیا پر آئینی ترمیم کی اہمیت بیان کر رہے ہیں۔ وہی وزراء جو چند روز قبل تک یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ حکومت عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم کرنے جا رہی ہے وہی وزراء اب اس آئینی پیکیج کے فضائل بیان کر رہے ہیں، حکومت کی جانب سے آخری وقت تک آئینی ترمیم کو خفیہ رکھنے کی حکمت عملی نے اس پورے عمل کو ہی مشکوک اور متنازع بنا دیا۔ جب اس امر کی ضرورت تھی کہ آئینی ترمیم کے معاملے پر اعتماد سازی اور اتفاقِ رائے کا ماحول پیدا کیا جائے تب حکومتی قانونی ٹیم اس غلط بیانی کرتی رہی، اب ناکامی اور سبکی کے بعد شہباز حکومت نے معاملات میڈیا کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، مگر شاید پانی پلوں سے گزر چکا ہے۔

الیکشن کمیشن کا اتحادی حکومت کو دو تہائی اکثریت فراہم کرنے کا امکان

دوسری جانب حکومتی ذرائع کا دعوی ہے کہ ائینی ترامیم کے حوالے سے مذاکرات ابھی تک جاری ہیں اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر ایک ایسا ترمیمی بل لانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس پر سب کا اتفاق رائے ہو، اس دوران ہر جانب کنفیوژن کا ایک ماحول ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کا مسودہ مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا ہے، دوسری جانب حکومت والے کہہ رہے ہیں کہ یہ ان کا پیش کردہ مسودہ ہی نہیں ہے، مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ انہیں اخری وقت میں ترمیمی مسودہ فراہم کیا گیا جسکا مطالعہ کرنے کے بعد واضح ہوا ہے کہ وہ کسی لحاظ سے قابل ِقبول نہیں، ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ ترامیمی پیکج پاس کرایا جاتا تو قوم کے ساتھ بڑی خیانت ہوتی۔ مولانا کے انکار کے بعد آئینی ترمیمی پیکیج کی منظوری کا معاملہ اکتوبر کے پہلے ہفتے تک مؤخر ہوگیا ہے کیونکہ وزیراعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے امریکا جا رہے ہیں، وزیراعظم شہباز شریف کی واپسی پر حکومت اس آئینی ترمیم کو منظور کروانے کی ایک مرتبہ پھر کوشش کرے گی۔

اس دوران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترامیم کے معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، انکا کہنا تھا کہ آئینی ترامیم کے مسودے پر سیاست کی گئی، عرنہ دنیا بھر میں آئینی عدالت اور سپریم کورٹ الگ الگ کام کرتی ہیں۔ دوسری جانب بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ایف اپنا اپنا ڈرافٹ تیا ر کر رہی ہیں، اور کوشش کی جائے گی کہ ایک متفقہ ڈرافٹ پر اتفاق رائے پیدا کر لیا جائے۔

اب سوقل یہ ہے کہ حکومتی آئینی ترامیم کے ڈرافٹ میں ایسا کیا تھا کہ مولانا نے کمٹمنٹ دینے کے باوجود اپنا موقف بدل لیا اور حکومت کا ساتھ دینے سے انکاری ہو گے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک بات تو بڑی واضح ہے کہ (ن) لیگ ہو، پیپلزپارٹی یا جے یو آئی ایف، تینوں ہی آئینی عدالت بنانے کے حق میں ہیں، اب چیف جسٹس کی مدت ملازت میں تین سال کی توسیع یا طریقہ کار کے سوال سے زیادہ یہ بات اہمیت اختیار کر چکی ہے کہ سپریم کورٹ کے علاوہ ایک وفاقی آئینی عدالت بھی کام کرے گی جو سپریم کورٹ آف پاکستان سے سوو موٹو نوٹس لینے کے آئینی اختیارات چھین لے گی اور عدالت عظمیٰ میں صرف ہائیکورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں ہی سنی جا سکیں گی۔ تحریک انصاف کو یہ خدشہ ہے کہ حکومت اگر جسٹس منصور علی شاہ کو سپریم کورٹ کا اگلا چیف جسٹس بننے بھی دیتی ہے تو وہ کہیں جسٹس قاضی فائز عیسی کو ائینی عدالت کا پہلا سربراہ مقرر نہ کر دے۔ اسی لیے تحریک انصاف مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر آئینی عدالت کی تشکیل کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن حکومتی حلقوں کا دعوی ہے کہ اسے آئینی عدالت کے قیام پر مولانا فضل الرحمان کی حمایت حاصل ہے اور اگلے دو ہفتوں کے اندر نیا آیینی ترمیمی پیکج پیش کر دیا جائے گا جو مولانا کی سپورٹ سے پاس بھی کروا لیا جائے گا۔

Back to top button