الیکشن کمیشن کا اتحادی حکومت کو دو تہائی اکثریت فراہم کرنے کا امکان

مولانا فضل الرحمن کی جانب سے نخرے دکھائے جانے کے بعد اتحادی حکومت نے عدلیہ بارے اپنا مجوزہ آئینی ترمیمی پیکج منظور کروانے کے لیے اپوزیشن کو دھوبی پٹرا مارنے کا فیصلہ کر لیا ہے چنانچہ اب اسلام آباد میں یہ خبر گرم ہے کہ الیکشن کمیشن کچھ ایسا کرنے جا رہا ہے جس سے حکومت کو پارلیمینٹ میں مطلوبہ دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کو لکھے گئے خط کے بعد اب اس امکان کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ پارلیمینٹ کی جانب سے الیکشن ایکٹ میں کی جانے والی حالیہ ترامیم کی بنیاد پر الیکشن کمیشن کی جانب سے 39 اراکین قومی اسمبلی کو آزاد قرار دے دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اسپیکر ایاز صادق کے خط کے عین مطابق الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے 8 ججز کے اکثریتی فیصلے پر عمل کرنے کی بجائے پارلیمنٹ کی جانب سے کی گئی ترمیم کو ترجیح دے گا۔ ایسی صورت میں حکومت کو مولانا فضل الرحمن کا مذید منت اور ترلا نہیں کرنا پڑے گا اور اسے آئینی ترامیم کا پیکج منظور کروانے کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل ہو جائے گی۔

یاد رہے کہ اس وقت سارا معاملہ پارلیمنٹ میں مطلوبہ نمبرز گیم حاصل کرنے کا ہے اور اگر حکومت اپنے نمبرز پورے کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو سیاست کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔ اگر حکومت ترمیمی پیکج منظور کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو اس کا فائدہ ہوگا جبکہ جسٹس منصور علی شاہ کو نقصان ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حکومت نے ترمیمی پیکج پیش کرنے کی تیاریاں مکمل کر لیں تو منصور علی شاہ کی زیر قیادت 8 ججز نے الیکشن کمیشن کو اچانک ایک خط لکھتے ہوئے یہ مطالبہ کر ڈالا کہ مخصوص نشستوں کے بارے سپریم کورٹ کے فیصلے پر فوری عمل کیا جائے ورنہ کمیشن کو حکم عدولی کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ سپریم کورٹ کے 8 ججز کے خط میں استعمال ہونے والی زبان سے صاف ظاہر تھا کہ یہ دراصل جسٹس منصور علی شاہ بول رہے ہیں جو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر آخری حد تک چلے گئے اور یہ بھی بھول گئے کہ ججز فیصلے دیا کرتے ہیں، خط نہیں لکھتے اور نہ ایسی زبان استعمال کرتے ہیں۔

حکومت کامولاناکی مدد کے بغیراکثریت حاصل کرنےکامنصوبہ تیار

دوسری جانب جسٹس منصور علی شاہ کی طرف سے الیکشن کمیشن کو دھمکی آمیز خط لکھے جانے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے بھی الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر مطالبہ کر دیا ہے کہ وہ ترمیمی الیکشن ایکٹ کے تحت فوری طور پر سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں الاٹ کر دے۔ ایاز صادق نے کمیشن کو الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترمیم سے آگاہ  کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس ترمیم کے بعد اب پہلے سے مختص کردہ مخصوص نشستیں تبدیل نہیں کی جا سکتیں اور نہ ہی اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل ہو سکتا ہے۔ اسپیکر نے خط میں مزید کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ہدایت دی ہے کہ وہ آزادارکان کو کسی اور پارٹی میں شمولیت کی اجازت دے، تاہم الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن ایسی کوئی کارروائی کرنے کا مجاز نہیں اس لیے الیکشن کمیشن نئے ترمیمی ایکٹ کے تحت پارلیمنٹ کی خود مختاری قائم رکھتے ہوئے فوری طور پر مخصوص نشستیں الاٹ کر دے۔

اسپیکر ایاز صادق کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پارلیمنٹ نے الیکشن ترمیمی ایکٹ 7 اگست 2024 کو منظور کر کیا تھا۔ بعد ازاں صدر اصف زرداری کے دستخط ہو جانے کے بعد الیکشن ایکٹ نافذ ہو چکا ہے، جس پر عمل کئے بغیر الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کا فیصلہ نہیں کر سکتا، ایاز صادق نے لکھا کہ ترمیم شدہ الیکشن ایکٹ پرانے ایکٹ سے بالا ہو گا، اور سپریم کورٹ کا فیصلہ ماضی کے ایکٹ کے تحت تھا جواب قابل اطلاق نہیں رہا۔

سردار ایااز صادق نے اپنے خط میں مزید لکھا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت جس رکن اسمبلی نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ پارٹی سرٹیفکیٹ نہیں جمع کروایا وہ اب آزاد تصور ہو گا، اور وہ آزاد ارکان جو سنی اتحاد کونسل یا کسی اور سیاسی جماعت کا حصہ بن چکے انہیں اب پارٹی تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان پر فلور کراسنگ کا قانون بھی لاگو ہو گا۔ خط میں کہا گیا کہ جمہوری اصولوں کی بالادستی کو یقینی بناتے ہوئے الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین پر فوری عمل کرے کیونکہ اس بارے سپریم کورٹ کے اپنے فیصلے بھی موجود ہیں، ایاز صادق نے لکھا کہ سپریم کورٹ کسی صورت ایک سیاسی جماعت کے رکن کو دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت کا حکم نہیں دے سکتی اور نہ الیکشن کمیشن پر اس حوالے سے دباؤ ڈال سکتی ہے۔ ایاز صادق کے مطابق الیکشن ایکٹ اس وقت نافذ العمل ہے، لہٰذا الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون پر عملدرآمد کرتے ہوئے مخصوص سیٹوں کی تقسیم کو یقینی بنائے۔

ایسے میں اگر الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کی جانب سے الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترمیم کے مطابق مخصوص نشستیں مختص کر دیتا ہے تو 39 اراکین قومی اسمبلی آزاد قرار پائیں گے جن کی مدد سے حکومت اپنا مجوزہ آئینی ترمیمی پیکج منظور کروا سکتی ہے۔ مبصرین کے مطابق اس وقت سپریم کورٹ کے مخصوص ججز جسٹس منصور علی شاہ کی زیر قیادت کھل کر سیاست کر رہے ہیں لہذا اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ضروری ہو چکا ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ پاکستان کی 75 سالہ سیاسی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ سپریم کورٹ کے ججز کے ایک گروپ نے چیف جسٹس کی مرضی کے بغیر الیکشن کمیشن کو دھمکی آمیز پریس ریلیز جاری کی جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ ججز ایک مخصوص سیاسی ایجنڈا لے کر چل رہے ہیں۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن نظر ثانی پٹیشنیں دائر کر چکے ہیں جن کی سماعت ابھی تک شروع نہیں ہوئی۔ دوسری جانب جسٹس منصور علی شاہ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ بھی ابھی تک نہیں لکھا جبکہ آٹھ مخصوص ججوں کی دھمکی آمیز پریس ریلیز ایک ایسے موقع پر جاری کی گئی جب وفاقی حکومت نے پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت کے ساتھ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے مخصوص سیٹوں کے فیصلے کو کاؤنٹر کر لیا تھا اور حکومت کو الیکشن کمیشن کی جانب سے اس ترمیم کی روشنی میں مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا انتظار تھا۔

Back to top button