حکومت کامولاناکی مدد کے بغیراکثریت حاصل کرنےکامنصوبہ تیار

سپریم کورٹ کے 8 عمرانڈو ججزکی جانب سے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ دینے کی بجائے دھمکی آمیز وضاحت جاری کرنے کے بعد وفاقی حکومت کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ سپیکر قومئی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو فوری ترمیمی الیکشن ایکٹ کے تحت سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں دینے کے حوالے سے خط لکھ دیا ہے۔سردار ایاز صادق نے چیف الیکشن کمشنر سے ترمیم شدہ الیکشن ایکٹ کے تحت مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا مطالبہ کر دیا۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے 8 عمرانڈو ججز کی جانب سے اپنے ایک وضاحتی بیان میں الیکشن کمیشن اف پاکستان کو وارننگ دی گئی ہے کہ اگر پی ٹی آئی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں 12 جولائی 2024 کی ججمنٹ کے مطابق فوری طور پر مخصوص نشستیں الاٹ نہ کی گئیں تو اسے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ مبصرین کے مطابق پاکستان کی 75 سالہ سیاسی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ سپریم کورٹ کے ججز کے ایک گروپ نے چیف جسٹس کی مرضی کے بغیر ایک دھمکی آمیز پریس ریلیز جاری کی تھی جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جج حضرات ایک مخصوص سیاسی ایجنڈا لے کر چل رہے ہیں۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن نظر ثانی پٹیشنیں دائر کر چکے ہیں جن کی سماعت ابھی تک شروع نہیں ہوئی۔ دوسری جانب جسٹس منصور علی شاہ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ بھی ابھی تک نہیں لکھا جبکہ آٹھ مخصوص ججوں کی دھمکی آمیز پریس ریلیز ایک ایسے موقع پر جاری کی گئی ہے جب وفاقی حکومت نے پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت کے ساتھ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے مخصوص سیٹوں کے فیصلے کو کاؤنٹر کر لیا تھا اور حکومت کو الیکشن کمیشن کی جانب سے اس ترمیم کی روشنی میں مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا انتظار تھا۔ تاہم مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریتی فیصلہ دینے والے سپریم کورٹ کے 8 ججز نے ایک عجیب و غریب وضاحتی پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ان کے جاری کردہ مختصر فیصلے میں کوئی ابہام نہیں ہے اور تحریک انصاف ہی مخصوص نشستوں کی حقدار ہے۔ عمرانڈو ججز کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا 12 جولائی کا شارٹ آرڈر بہت واضح ہے، اور الیکشن کمیشن نے اس حکم کو غیر ضروری طور پر پیچیدہ بنایا ہے، یہ بھی کہا گیا کہ اس فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے سنگین نتائج ہوں گے

تاہم اب سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز نے مخصوص نشستوں کی تقسیم کے حوالے سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو خط لکھ دیا ہے۔اسپیکر ایاز صادق نے چیف الیکشن کمشنر کو الیکشنز ایکٹ میں ترمیم سے آگاہ  کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد مخصوص نشستیں تبدیل نہیں کی جاسکتیں۔

سپیکر نے خط میں مزید کہاہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ہدایت دی ہے کہ وہ آزادارکان کو کسی اور پارٹی میں شمولیت کی اجازت دے، تاہم الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن ایسی کوئی بھی کارروائی کرنے کا مجاز نہیں اس لئے الیکشن کمیشن نئے ترمیمی ایکٹ کے تحت پارلیمنٹ کی خودمختاری قائم رکھتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرے ۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پارلیمنٹ نے الیکشن ترمیمی ایکٹ 7اگست کو منظور کیا،پارلیمنٹ کا منطور کردہ ایکٹ صدر کے دستخط کے بعد نافذ العمل ہو گیا ہے،اس لئے ایکٹ پر عملدرآمد کئے بغیر الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کا فیصلہ نہیں کر سکتا،اب ترمیم شدہ الیکشن ایکٹ پہلے والے ایکٹ سے بالا ہوگا،سپریم کورٹ کافیصلہ ماضی کے ایکٹ کے تحت تھا جواب قابل اطلاق نہیں رہا۔

سردار ایااز صادق کا خط میں مزید کہنا ہے کہ ایکٹ کے تحت جس رکن نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ پارٹی سرٹیفکیٹ نہیں دیا وہ آزاد تصور ہوگا، وہ آزادارکان جو ایک سیاسی جماعت کا حصہ بن گئے انہیں پارٹی تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔خط میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن پارلیمنٹ، جمہوری اصولوں کی بالادستی کو یقینی بنائے۔ الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین پر عملدرآمد کرے،یہ میری رائے نہیں ، اس پر سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں، سپیکر نے کہاکہ عدالتی فیصلے کا تاثر یہ ہے کسی جماعت کے رکن کو دوسری جماعت میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی۔ جو نئے ایکٹ کے تحت ممکن نہیں۔ سردار ایاز صادق کے مطابق الیکشن ایکٹ اس وقت نافذ العمل ہے، الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون پر عملدرآمد کرتے ہوئے مخصوص سیٹوں کی تقسیم کو یقینی بنائے۔

یاد رہے کہ 14مارچ کو پشاور ہائی کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔بعد ازاں، 12 جولائی کو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 13 رکنی فل بینچ نے پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیا تھا۔ تاہم وفاقی حکومتت نے 7 اگست کو الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو فیصلے پر عملدرآمد سے روک دیا تھا۔

Back to top button