شاطر مولانا نے حکومت اور اپوزیشن سے کیا مطالبات کیے ہیں؟

اس وقت اپوزیشن اور حکومت دونوں سے منتیں اور ترلے کروانے والے مولانا فضل الرحمن کا بظاہر تو موقف یہی ہے کہ وہ اصولوں کی سیاست کر رہے ہیں اور ان کا کسی جماعت سے کوئی مطالبہ نہیں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ در پردہ وہ اپنے مطالبات سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو آگاہ کر چکے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مجوزہ آئینی ترامیم کے پیکج پر مولانا فضل الرحمن نے حکومت کو آگے لگا رکھا ہے اور بظاہر اپنے بدترین سیاسی مخالف عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کے ہم نوا بنے ہوئے ہیں، لیکن جو لوگ مولانا کو جانتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ انہیں بدلتے ہوئے دیر نہیں لگتی، جیسے ہی ان کی قیمت لگ گئی اور ان کے مطالبات پورے ہو گے، مولانا فوری اپنا قبلہ بدل لیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا اصولی موقف ہمیشہ ایک ڈھکوسلہ ثابت ہوتا ہے۔ موصوف نے ماضی میں مشرف جیسے ملٹری ڈکٹیٹر کا ساتھ دیتے ہوئے اس کے لیگل فریم ورک آرڈر نامی آئینی ترامیمی پیکج کو پاس کروایا تھا لہذا اگر پارلیمنٹ کوئی ترامیم لانا چاہتی ہے تو مولانا انہیں بھی سپورٹ کریں گے، بس ان کی قیمت اچھی لگنی چاہیے۔

مولانا اپنے میٹھے انگوروں کی فصل کس پارٹی کو کھلائیں گے ؟

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مولانا جانتے ہیں چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت 25 اکتوبر 2024 کو پوری ہو جائے گی لیکن اتحادی حکومت انہیں برقرار رکھنا چاہتی ہے، ایسے میں حکومت کے پاس صرف پانچ ہفتے باقی ہیں۔ ابھی تک مولانا چیف جسٹس فائز عیسی کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کی مخالفت کرتے نظر اتے ہیں، مولانا کا کہنا ہے کہ انہیں آئینی ترامیم کے حوالے سے کوئی جلدی نہیں اور یہ کام کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف جوں جوں دن گزرتے جائیں گے حکومت کی اینگزائٹی میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا اور آخر میں شہباز سرکار مولانا کا ہر مطالبہ ماننے پر مجبور ہو جائے گی۔ دوسری جانب اگر مجوزہ آئینی ترامیم کا پیکج پاس ہو جاتا ہے اور قاضی فائز عیسی ریٹائر نہیں ہوتے تو عمران خان کی حمایتی عدلیہ کمزور پڑ جائے گی اور منصور علی شاہ چیف جسٹس نہیں بن پائیں گے لہازا پی ٹی آئی والے بھی مولانا کا ہر مطالبہ ماننے پر مجبور ہوں گے۔

تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع بتاتے ہیں کہ مولانا تحریک انصاف کے ساتھ بلاوجہ پیار کی پینگیں نہیں بڑھا رہے۔ ان کے کچھ مطالبات ہیں جن کے عوض وہ اپوزیشن کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ جے یو آئی کو سینیٹ کی دو سیٹیں چاہییں۔ اس وقت مولانا اپنے سمدھی اور سابق گورنر کے پی، حاجی غلام علی کے علاوہ سابق سینیٹر دلاور خان کو بھیبدوبارہ سینیٹر بنوانا چاہتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ خیبر پختون خواہ کی اسمبلی میں مولانا کے کل 9 ایم پی ایز ہیں لہازا جے یو آئی سینیٹ کی ایک بھی سیٹ نہیں نکال سکتی۔ ایسے میں اسے پی ٹی آئی کی مدد کی ضرورت ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ عمران خان مولانا کو ایک سیٹ دینے کو تیار ہیں مگر مولانا دو مانگ رہے ہیں۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں عمران خان اگلے ہفتے تک مولانا کو دو سیٹیں دینے کے لیے بھی رضا مند ہو جائیں گے۔

 دوسری طرف مولانا حکومت سے خیبر پختون خواہ کی گورنر شپ بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں جو اس وقت پاور شیرنگ فارمولے کے تحت پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی کے پاس ہے‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ فیصل کریم کنڈی، مولانا فضل الرحمن اور علی امین گنڈا پور نے بلوچستان کے ایک ہی صوبائی حلقے سے الیکشن لڑا، جس میں گنڈاپور کامیاب ہوئے اور وزیراعلی بن گئے۔ فیصل کنڈی الیکشن ہارنے کے باوجود پیپلز پارٹی کے کھاتے میں گورنر بن گئے۔ پیچھے بچ گے مولانا فضل الرحمن جنہیں شہباز حکومت نے گھاس ڈالنے سے انکار کر دیا چونکہ قومی اسمبلی میں حکومت بنانے کے لیے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے پاس سادہ اکثریت آ چکی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کا یہ موقف ہے کہ اس نے تو وفاقی حکومت میں کوئی حصہ لینے کی بجائے صرف چند آئینی عہدے حاصل کیے تھے جن میں خیبر پختون خواہ کی گورنرشپ بھی شامل تھی۔ لہذا مولانا کا مطالبہ پورا کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت نے شہباز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بلوچستان کی گورنر شپ جے یو آئی کو سونپ دیں چونکہ پاور شیئرنگ فارمولے کے تحت وہاں پر نواز لیگ کا بندہ گورنر لگایا گیا ہے۔ ابھی تک حکومت نے مولانا کے اس مطالبے پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا لیکن سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ حکومت ستمبر کے آخر تک یہ مطالبہ بھی مان جائے گی۔ اس کے علاوہ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ مولانا نے وفاقی کابینہ میں دو سے تین وزارتوں کا مطالبہ بھی کر رکھا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مولانا سیاسی لحاظ سے اس قدر شاطر ہیں کہ وہ حکومتی اتحاد اور اپوزیشن دونوں سے  اپنے مطالبات تسلیم کروانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ یعنی کوئی پتہ نہیں کہ مولانا اپنا گورنر بھی لے آئیں، پی ٹی آئی سے سینیٹ کی دو سیٹیں بھی لے لیں اور وفاقی کابینہ میں وزارتیں بھی حاصل کر لیں۔ سینیئر صحافی جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہو جائے تو پھر تمام سیاسی جماعتوں کو مولانا کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہیئے۔

Back to top button