مولانا اپنے میٹھے انگوروں کی فصل کس پارٹی کو کھلائیں گے ؟

 

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کے ہرے بھرے سیاسی باغ میں انگور کی فصل پک کر تیار ہو چکی ہے۔ اس فصل کے میٹھے انگور کھانے کی خواہش مسلم لیگ ن کی بھی ہے، پیپلز پارٹی کی بھی اور تحریک انصاف والوں کی بھی۔  لیکن مولانا صبر کا مشورہ دیتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ وہ خود تحفے کے طور پر اپنے باغ کے کچھ انگور قابل اعتماد دوستوں کو بھجوا دیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر کوئی چالاکی سے ان کے انگور چرانے کی کوشش کرے گا تو یاد رکھے کہ وہ انگور کھٹے نکلیں گے، لہازا سب کو انتظار کرنا ہو گا۔ یعنی اب نون لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف والے مانگنے والے بن چکے ہیں اور مولانا دینے والے بنے ہوئے ہیں، ایسے میں اگر کسی کو میٹھے انگور ملیں گے تو مولانا کی مرضی سے ملیں گے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رسوا کر دیتا ہے۔ ہمارے سامنے اس کی زندہ مثال مولانا فضل الرحمان کی ذات ہے۔ فروری 2024ء کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) نے مولانا صاحب کو نظر انداز کر رکھا تھا۔ انتخابات سے قبل ہی یہ کہا جا رہا تھا کہ اس مرتبہ جمعیت علماء اسلام کو پاکستان کے سیاسی منظر سے غائب کر دیا جائے گا اور مولانا سیاست کے کھلاڑی سے ایک بھکاری بن جائیں گے۔ عمران کے دورِ حکومت میں مسلم لیگ (ن) پر برا وقت تھا تو اس جماعت نے پی ڈی ایم کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیکر مولانا فضل الرحمان کو اس کا سربراہ بنایا۔ جب مولانا نے پی ڈی ایم کے جلسے جلوس شروع کیے تو جنرل قمر باجوہ نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کچھ بیک ڈور چینل کھولے اور یوں عمران خان کی حکومت کو گرانے کےلیے جوڑ توڑ شروع ہوا۔ حکومت کی تبدیلی کے بعد شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے انہیں جب بھی سیاسی قوت کے مظاہرے کی ضرورت پڑتی تو وہ مولانا سے مدد مانگتے تھے کیوں کہ جے یو آئی ان کی حکومت میں شامل تھی۔ نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد دانستہ طور پر مولانا فضل الرحمٰن سے فاصلے پیدا کیے گئے تاکہ مسلم لیگ (ن) کو بنیاد پرستوں کا اتحادی نہ سمجھا جائے۔

حامد میر کا کہنا ہے کہ مولانا کافی عرصہ اس غلط فہمی میں رہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ کی حیثیت سے مسلم لیگ (ن) انتخابات میں ان کے ساتھ اتحاد قائم کرے گی۔ ان کی غلط فہمی اس وقت دور ہوئی جب مسلم لیگ (ن) نے ان سے کہا کہ آپ کے امیدوار شیر کے نشان پر انتخابات میں حصہ لیں تو ہم کچھ نشستیں آپ کو دے دیتے ہیں۔ مولانا کو یقین ہو گیا کہ مسلم لیگ (ن) تنہا پرواز کا فیصلہ کر چکی ہے لہٰذا انہوں نے بحث مباحثے کی بجائے معاملات اللہ پر چھوڑ دیے۔ حفاظتی تدبیر کے طور پر انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کے ساتھ ساتھ پشین سے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے۔ ڈیرہ میں ان کا مقابلہ علی امین گنڈا پور سے تھا۔ گنڈا پور جیت گئے۔ مولانا نے پشین کی نشست سے کامیابی حاصل کی۔ جب انہوں نے دھاندلی کے الزامات لگائے تو مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ آپ کے مقابلے پر تو تحریک انصاف والوں کو کامیابی ملی ہے آپ ان کے خلاف احتجاج کریں۔ پی ٹی آئی والے مولانا کے خلاف اپنے پرانے الزامات کو بھلا کر ان کے ساتھ سیاسی اتحاد قائم کرنے کی کوششں میں لگ گئے۔ مولانا نے اس معاملے میں احتیاط کا مظاہرہ کیا۔ جنرل ضیاءالحق کے دورِ آمریت میں وہ بحالی جمہوریت کی تحریک میں پیپلز پارٹی کے اتحادی بنے لیکن 1988ء میں پیپلز پارٹی نے جے یو آئی کو نظر انداز کر کے اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان اور آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے ساتھ ڈیل کر کے اقتدار حاصل کیا۔ بعد ازاں 2024ء میں یہی کچھ مسلم لیگ (ن) نے مولانا کے ساتھ کیا لہٰذا تحریک انصاف والوں نے مولانا کے گھر چکر لگانے شروع کیے تو مولانا محتاط رہے۔ انہوں نے نیا اتحاد بنانے کی بجائے ایشو ٹو ایشو اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ تعاون کی پالیسی کا اعلان کیا۔

حامد میر کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فل بینچ نے قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دیا تو حکومت نے سپریم کورٹ کے آئندہ چیف جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکنے کیلئے منصوبہ بندی شروع کی۔ اس منصوبے کے تحت آئین میں 26ویں ترمیم لانے کا فیصلہ کیا گیا ترمیم کا مقصد ایک نئی آئینی عدالت کا قیام اور اس عدالت کے ذریعہ سپریم کورٹ کو غیر موثر کرنا تھا۔ آئینی ترمیم کےلیے حکومت کو مولانا فضل الرحمٰن کے ووٹ درکار تھے ان ووٹوں کے حصول کےلیے صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف خود چل کر مولانا کے پاس گئے اور ان سے ووٹ مانگے۔ مولانا نے بڑے واضح الفاظ میں وزیر اعظم کو کہا کہ آپ ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں اگر آپ میری جگہ ہوں تو کیا آپ راتوں رات اتنا بڑا یوٹرن لیں گے؟ شہباز شریف خالی ہاتھ واپس لوٹے۔ مولانا نے اپنی جماعت سے مشورہ کیا تو ساتھیوں نے بھی حکومت سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔ اس دوران کچھ حکومتی شخصیات یہ دعوے کرتی رہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن ہمارے دامِ الفت میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ جب ہم نے ایک اہم حکومتی شخصیت سے ان کے دعوے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے آنکھ مار کر کہا کہ مولانا کو ایک ایسی جگہ سے حکم جاری کروایا گیا ہے، جہاں مولانا انکار نہیں کر سکتے۔ اسی غلط فہمی میں 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کےلیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا اجلاس بلا لیا گیا۔ جب اس آئینی ترمیم کا مسودہ مولانا کو فراہم کیا گیا تو انہوں نے سب سے زیادہ اعتراضات آئین کی دفعہ آٹھ میں کی جانے والی تبدیلیوں پر کیے۔

13 سیٹوں والے مولانا آخری وقت کس کے ساتھ یاری نبھائیں گے؟

حامد میر کے مطابق دفعہ آٹھ بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ہے جب مولانا نے ایک اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے سامنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو انہوں نے بڑی شاہانہ تمکنت سے میز پر ہاتھ مار کر کہا کہ ہم ہر قیمت پر اس ترمیم کو منظور کرانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ یہ وہ موقع تھا جب مولانا کو وزیر صاحب کی شاہانہ تمکنت میں رعونت کی جھلک نظر آئی اور انہوں نے اس آئینی ترمیم کے مجوزہ مسودے کو مسترد کر دیا۔ مولانا کے انکار پر حکومت دنگ رہ گئی۔ نجانے وہ یہ کیوں سمجھ رہے تھے کہ مولانا اپنا ریٹ بڑھا رہے ہیں۔ مولانا کے انکار نے حکومت کو صدمے سے دوچار کر دیا لیکن مولانا کی ہر طرف سے عزت افزائی ہو رہی تھی۔

حامد میر کہتے ہیں کہ اب وہ تمام صاحبان اپنے الفاظ پر غور کریں جو بڑے دھڑلے سے میڈیا کو بتا رہے تھے کہ حکومت کی نمبرز گیم پوری ہے۔ مولانا نے ایک دفعہ نہیں بار بار وزیر اعظم اور ان کے وزراء سے کہا کہ میں کسی ایسی آئینی ترمیم کا حصہ نہیں بنوں گا جس کا مقصد آئین کے ڈھانچے کو تباہ کرنا ہو۔ پھر یہ صاحبان نمبرز گیم پوری ہونے کا دعویٰ کیوں کرتے رہے؟ جی ہاں! ان کے اعتماد کی وجہ وہ جگہ تھی جہاں سے آنے والے حکم پر یہ صاحبان فوراً جھک جاتے ہیں۔ مولانا نے اس جگہ نہ انکار کیا نہ کوئی گستاخی، انہوں نے اپنا مدعا بڑے ادب سے بیان کیا کیوں کہ مولانا کئی غیر ملکی زبانیں بول سکتے ہیں۔ حکومت نے اپنی ناکامی اور رسوائی کے بعد بلاول بھٹو زرداری کے ذریعے ایک نئی کوشش شروع کی ہے۔ لہٰذا آگے آگے دیکھیے، ہوتا ہے کیا؟

Back to top button