مجوزہ آئینی ترامیم کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا : سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ مجوزہ آئینی ترامیم کو اس مرحلے پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ یہ ترامیم ابھی پارلیمان سے منظور نہیں ہوئی ہیں۔

سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عابد شاہد زبیری کی جانب سےدائر کی گئی درخواست کو واپس کردیا، اس میں حکومت کو ’آئینی پیکج‘ کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے سےروکنے کا مطالبہ کیاگیا تھا۔

ایک صفحے کےخط میں اسسٹنٹ رجسٹرار نے درخواست واپس کرنے کےلیے رجسٹرار آفس کی ہدایت کاحوالہ دیا۔اس میں کہاگیا ہےکہ آئین کے تحت، قانون بنانےکا اختیار پارلیمنٹ کےپاس ہے اور کسی قانون کی منظوری سےپہلے اسے ختم نہیں کیاجا سکتا۔

رجسٹرار نےان عہدیداروں پر بھی اعتراض کیاجنہیں درخواست میں مدعی کے طور پر پیش کیاگیا ہے۔اس میں کہاگیا ہےکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قانون بنانےکا اختیار رکھنےوالے اراکین کو درخواست میں فریق نہیں بنایاگیا ہے۔

وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں،صدر اور وزیر اعظم کےپرنسپل سیکریٹریز، جو بطور جواب دہندگان درج ہیں، پارلیمنٹ کے رکن نہیں ہیں۔

وزیر اعظم اور صدر کے پرنسپل سیکریٹریز کو درخواست میں فریق نہیں بنایا جاسکتا کیوں کہ انہیں آئین کے آرٹیکل 248 کےتحت استثنیٰ حاصل ہے۔

مذکورہ آرٹیکل میں کہاگیا ہےکہ صدر، گورنر، وزیر اعظم، وفاقی وزیر، وزیر مملکت، وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزیر اپنےاختیارات کےاستعمال اور اپنےفرائض کی انجام دہی کےلیے متعلقہ دفاتر یا ان کے اختیارات کےاستعمال کےلیے کسی عدالت کےسامنے جوابدہ نہیں ہوں گے۔

رجسٹرار نے یہ بھی کہاکہ درخواست گزاروں نےخود کو پاکستان بار کونسل کے وکیل اور رکن کے طور پر بتایاہے، جب کہ لیگل پریکٹیشنرز اور بار کونسلز ایکٹ یہ شرط رکھتاہے کہ وکلا کو کسی بھی معاملے میں فریق نہیں بنناچاہیے۔

اگر درخواست گزاروں کو کوئی شکایت ہےتو وہ پہلےاپنے متعلقہ وکلا کےاداروں سے رجوع کریں تاکہ وہ اس مقدمےمیں ان کی نمائندگی کریں۔

دوسری جانب جمعرات کو پاکستان بار کونسل نے حکومت کی جانب سے آئین میں ترمیم کی کوششوں پر شدید تحفظات کا اظہارکیا۔پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ایک اجلاس کی صدارت اس کےوائس چیئرمین فاروق حامد نائیک نے کی، اجلاس میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیاگیا کہ قانون سازی سےمتعلق رازداری کو پارلیمانی جماعتوں کےاصولوں، قانون کی حکمرانی اور جمہوری اقدار کی صریح خلاف ورزی کےطور پر سمجھا جاسکتا ہے۔

پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان نے کہاکہ اس طرح کی کارروائیاں پارلیمنٹ اور اس کےارکان کی ساکھ کو بھی داغدار کرتی ہیں جو عوام کےمنتخب نمائندے ہیں۔اجلاس میں مجوزہ ترامیم پر بھی تبادلہ خیال کیاگیا اور مسودے میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں،اجلاس کو 25 ستمبر تک ملتوی کردیاگیا۔

پاکستان بار کونسل نے صوبائی بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز کےساتھ مل کر متفقہ طور پر اس بات پر تشویش کا اظہار کیااور اسے انہوں نے آئین کےبنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرنےکی کوششوں کا نام دیا اور ایسےکسی بھی اقدام کی مزاحمت کرنےکا عزم ظاہر کیاہے۔

حکومت آرٹیکل 8 میں ترمیم سےملٹری کورٹس لگانا چاہ رہی تھی : بلاول بھٹو

Back to top button