چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی اصول پسندی

تحریر : نصرت جاوید

بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت

وطنِ عزیز میں سیاستدانوں کو بحیثیت مجموعی محض اقتدار کی ہوس میں مبتلا بتایا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کی لعنت ملامت کرتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ جن دنوں مسلم اشرافیہ کی بے پناہ ا کثریت برطانوی استعمار کی تشکیل کردہ سول اور ملٹری انتظامیہ میں بھرتی کو مرے جارہی تھی تو محمد علی جناح جیسے سیاستدانوں ہی کی بدولت پاکستان کا قیامِ عمل میں آیا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعدبھی ہماری تا ریخ میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئے جہاں چند سیاستدانوں نے انفرادی یا جماعتی حیثیت میں ہر نوع کے آمرانہ ہتھکنڈوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ طاقتوروں کے آگے نہ جھکنے کی وجہ سے بھٹو کو پھانسی لگی۔ خان غفار خان اور عبدالصمد اچکزئی جیسوں نے تقریباً ساری عمر جیلوں میں گزاردی۔ میاں افتخار الدین اور حسین شہید سہروردی جیسے قدآور رہ نما افسردگی سے موت کی نذر ہوئے۔ سختیاں جھیلنے والوں کو مگر ہم یاد نہیں رکھتے۔ ’جیہڑا جتے اوہدے نال‘ کا رویہ نہایت ڈھٹائی سے اپناتے ہیں۔ اس کے باوجود فقط سیاستدانوں ہی سے یہ توقع باندھتے ہیں کہ وہ آمرانہ رویوں کا مقابلہ کریں۔ مقابلہ کرنے والوں کو یاد نہ رکھنے کی عادت نے ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت کو بھی اب بے دریغ انداز میں اصول بھول جانے کا عادی بنادیا ہے۔
مذکورہ تناظر میں سینیٹ کے موجودہ چیئرمین یوسف رضا گیلانی کو میں استثنا کی صورت دیکھنے کو مجبور ہوں۔ جنرل ضیاء کی مجلس شوریٰ کا رکن ہونے کے بعد وہ 1985ء کی نیشنل اسمبلی میں آئے تھے۔ انھیں ایک روایتی جاگیردار سیاستدان سمجھتا رہا جو طاقتور کو نہ کہنے کے جبلی طورپر قابل ہی نہیں ہوتا۔ ان کو قریب سے جاننے والے چند بزرگ سیاستدان اگرچہ مجھے بتاتے رہے کہ ملتان کے گیلانی خاندان میں کبھی کبھار ’باغیانیہ خیال‘ کے حامل افراد بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ برطانوی دور میں ضلع کونسل کی چودھراہٹ اہم ترین عہدوں میں شمار ہوتی تھی۔ اس منصب پر فائز ہونے کے لیے ضلع کے انگریز ڈپٹی کمشنر کی سرپرستی درکار تھی۔ گیلانی خاندان کے ایک بزرگ مگر انگریز ڈی سی کی سرپرستی کے بغیر ضلع کونسل کے چودھری منتخب ہوگئے۔ لوگوں کو چونکا دیا۔
1985ء کی اسمبلی میں پیرپگاڑا کی تھپکی کے ساتھ نوازشریف کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کے لیے ایک گیم لگی۔ جنرل ضیاء نے براہِ راست مداخلت کے ذریعے نوازشریف کا ’کلہ‘ بچایا۔ یوسف رضا گیلانی اس گیم میں اپنی ہار تسلیم کرنے کے بعد اچھے وقت کا انتظار کرنے لگے۔ بالآخر 1986ء آیا تو پیپلز پارٹی میں شامل ہوکر وفاقی وزیر بن گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت مگر دو سال بعد ہی صدر اسحاق کے ہاتھوں برطرف کردی گئی۔ نئے انتخاب ہوئے تو نواز شریف اپنی مسلم لیگ کے ساتھ وزیر اعظم کے دفتر پہنچ گئے۔ یوسف رضا گیلانی نے دیگر کئی روایتی سیاستدانوں کی طرح چڑھتے سورج کا ساتھ نہیں دیا۔ پیپلز پارٹی ہی میں ٹکے رہے۔ اس وابستگی نے مجھے حیران کیا۔
آصف علی زرداری 1990ء کے انتخاب کے دوران قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ صدر اسحاق نے اپنے ’احتساب کمشنر‘ مرحوم روائیداد خان کے ذریعے انھیں مختلف کرپشن مقدمات کے تحت جیل میں ڈال دیا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ جام صادق علی بھی پیپلز پارٹی سے ناراض ہوکر اسحاق خان کے کارندے بن چکے تھے۔ انھوں نے جاگیردارانہ منتقم المزاجی کے ساتھ ان پر سندھ میں مزید کئی مقدمات قائم کرکے زرداری صا حب کو تاعمر جیل میں رکھنے کا عہد باندھ رکھا تھا۔
دنیا کے کئی جمہوری ملکوں میں سنگین ترین جرائم کے تحت گرفتار ہوئے رکن پارلیمان کو بھی یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ پارلیمان کے اجلاس کے دوران ’اپنے لوگوں کی نمائندگی‘ کے لیے وہاں موجود ہو۔ گرفتار شدہ رکن کی ایوان زیریں یا بالا میں حاضری یقینی بنانے کے لیے مذکورہ ایوانوں کے سربراہ ’پروڈکشن آرڈر‘ جاری کرتے ہیں۔ 1990ء کی قومی اسمبلی کے سپیکر عمر ایوب خان کے والد گوہر ایوب خان تھے۔ وہ اسمبلی کا ہر اجلاس شروع ہوتے ہی پیپلز پارٹی کے مطالبے پر آصف علی زرداری کی اس میں موجودگی یقینی بنانے کے لیے ’پروڈکشن آرڈر‘ جاری کرتے۔ جام صادق علی مگر ’میری قید‘ میں موجود ’مجرم‘ کو اسلام آباد بھیجنے سے انکار کردیتے۔ ان کے انکار کو صدر غلام اسحاق خان کی کامل پشت پناہ میسر ہوتی۔ کئی مہینوں تک جام صادق علی کے ہاتھوں زچ ہونے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اور گوہر ایوب خان کے مابین ایک تفصیلی ملاقات ہوئی۔ مذکورہ ملاقات کو ان دنوں کے وزیر اعظم نواز شریف کی خفیہ تائید بھی حاصل تھی۔ بالآخر فیصلہ یہ ہوا کہ کسی گرفتار رکن اسمبلی کی ایوانِ زیریں کے اجلاس میں موجودگی یقینی بنانے کے لیے اسمبلی کے قواعد میں ایسی زبان کے ساتھ کوئی نئی شق ڈالی جائے جو جام صادق علی جیسے افراد کو اس ضمن میں بے اثر بنا سکے۔ کئی مہینوں کی جدوجہد کے بعد متعارف ہوئی اس شق کی بدولت بالآخر آصف علی زرداری جیل سے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں آنا شروع ہوگئے۔وقت 1993ء میں لیکن بدل گیا۔ صدر اسحاق نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت برطرف کرنے کے بعد نواز شریف کی پہلی حکومت کو بھی اس برس کے اپریل میں برطرف کردیا۔ نئے انتخاب ہوئے تو محترمہ بے نظیر بھٹو وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹ آئیں۔ یوسف رضا گیلانی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوکر اس کے سپیکر بن گئے۔ 1993ء کی اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر راولپنڈی کی لال حویلی سے اٹھے بقراطِ عصر بھی موجود ہوا کرتے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جب بھی بطور وزیر اعظم قومی اسمبلی کے اجلاس میں داخل ہوتیں تو گلی کے لونڈوں کی طرح ان پر فقرے اچھالتے۔ ایک بار موصوف نے محترمہ کے لباس کی مناسبت سے انتہائی بے ہودہ فقرہ کہا۔ جب وہ یہ فقرہ ادا کررہے تھے تو فواد چودھری کے تایا -چودھری الطاف حسین- بطور گورنر پنجاب مہمانوں کی گیلری میں موجود تھے۔ محترمہ کی تقریر کے بعد ان کی وزیر اعظم سے ملاقات تھی۔ ان کے لیے مگر انھیں انتظار کرنا پڑا کیونکہ بقراطِ عصر کے رکیک جملوں نے محترمہ کو بددل کردیا تھا۔ محترمہ سے ملتے ہی چودھری الطاف نے غصیلے جاٹ کی طرح وعدہ کیا کہ وہ بقراطِ عصر کی بدزبانی کا بدلہ لیںگے۔ اپنا عہد نبھانے کے لیے چودھری صاحب نے اسی رات بدزبان بقراط کی لال حویلی سے ممنوعہ بور کی بندوق بذریعہ پنڈی پولیس برآمد کروالی۔ ممنوعہ بور کا غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں بقراطِ عصر پرا نسداددہشت گردی کی عدالت میں تیز رفتاری سے مقدمہ چلا۔ قید بامشقت کی سزا سنانے کے بعد انھیں
قیدیوں سے مختص لباس پہنواکر بہاولپور جیل بھیج دیا گیا۔قومی اسمبلی کے مگر وہ ابھی بھی رکن تھے۔ جب قومی اسمبلی کااجلاس ہوتا تو مسلم لیگ لال حویلی کے بدزبان کے لیے پروڈکشن آرڈر کا تقاضا کرتی۔ یوسف رضا گیلانی کی جانب سے جاری ہونے کے باوجود مگر اس پر عمل درآمد نہ ہوتا کیونکہ اب کی بار پنجاب کا مہاراجہ ہوئے چودھری الطاف ’اپنا قیدی‘ اسلام آباد بھیجنے کو تیار نہ ہوتے۔ یوسف رضا گیلانی کو پیپلز پارٹی میں شامل جی حضوری بھی تنہائی میں لال حویلی کے مکیں کی بدزبانیاں یاد دلاتے۔ گیلانی صاحب کا مگر ایک ہی جواب ہوتا اور وہ یہ کہ اسمبلی کے قواعد گرفتار رکن پارلیمان کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں موجودگی کا تقاضا کرتے ہیں اور یہ اصول پیپلز پارٹی کی محنت ولگن سے مضبوط ہوا تھا۔ وہ پروڈکشن آرڈر جاری کرتے رہے۔ چوھری الطاف حسین ان کی حکم عدولی کو مصر رہے تو گیلانی صاحب نے نہایت خاموشی وبردباری سے قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت سے غائب رہنا شروع کردیا۔ ان کی عدم موجودگی حکومت کے لیے سبکی کا باعث ہوئی۔ بالآخر بدزبان نے محترمہ کو چند لوگوں کے ذریعے یقین دلایا کہ اگر ا نھیں پروڈکشن آرڈر کے ذریعے قومی اسمبلی کے اجلاس میں آنے دیا گیا تو وہ خاموش رہا کریں گے۔ اس یقین دہانی کے بعدگیلانی صاحب کے پروڈکشن آرڈر پر عمل درآمد ہوناشروع ہوگیا۔وقت ایک بار پھربدل چکا ہے۔ یوسف رضا گیلانی ان دنوں چیئرمین سینیٹ ہیں۔ حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہے ا ور اپوزیشن میں تحریک انصاف بیٹھی ہے جو اپنے ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار کے دوران گرفتار رکن قومی اسمبلی کی پارلیمان کے اجلاسوں میں موجودگی کو ’قانون سب کے لیے برابر‘ والے اصول کی نفی قرار دیتے ہوئے اسے نا ممکن بناتی رہی۔ وقت مگر بہت ہی ظالم ہے۔ ان دنوں تحریک انصاف کے ایک سینیٹر-اعجاز چودھری- 9 مئی کے حوالے سے کئی ماہ سے جیل میں ہیں۔ جیل میں ہوتے ہوئے بھی لیکن وہ منتخب سینیٹر ہیں۔ تحریک انصاف نے سینیٹ کے اجلاس میں ان کی موجودگی کا مطالبہ کیا تو یوسف رضا گیلانی نے 13جنوری کو ان کا پروڈکشن آرڈر جاری کردیا۔ ان کے حکم پر عمل نہ ہوا تو سینیٹ کے اجلاسوں کی صدارت کرنا ویسے ہی چھوڑ دی جیسے بطور سپیکر قومی اسمبلی محترمہ کی دوسری حکومت کے دوران کیا کرتے تھے۔ 6مارچ کو مگر حکومت نے تحریک انصاف کے ایک اور سینیٹر عون عباس بپی کو بھونڈے انداز میں گرفتار کرلیا۔ پولیس اگر کسی رکن پارلیمان کو گرفتار کرے تو اس واقعہ کی اطلاع قومی اسمبلی کے سپیکر یا سینیٹ چیئرمین کو فراہم کرنا لازمی ہے۔ عون عباس ہی کے حوالے سے اس روایت کو بھی بھلادیا گیا۔ اسی باعث یوسف رضا گیلانی طویل وقفے کے بعد جمعہ کے روز میڈیا کے روبرو آئے اور واضح الفاظ میں اعلان کردیا کہ وہ سینیٹ کے ہفتے کے دن ہونے والے اجلاس میں اعجاز چودھری اور عون عباس کی موجودگی یقینی بنانے کے لیے پروڈکشن آ رڈر جاری کرچکے ہیں۔ ان پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔ہفتے کی صبح میں بستر سے نکلنے میں ہمیشہ بہت دیر لگاتا ہوں۔ اب کی بار مگر بروقت سینیٹ پہنچ گیا۔ مقصد فقط یہ دیکھنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی میں اپنا عہد نبھانے کا دم خم باقی رہ گیا ہے یا نہیں۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ چیئرمین سینیٹ نے نتائج کی پروا کیے بغیر اپنا قول نبھایا۔ ان کے رویے نے مجھے امید پرست منو بھائی کی بیان کردہ ’اجے قیامت نئیں آئی‘ کی یاد دلادی ہے۔

Back to top button