ایس ایس جی کے کمانڈوز نے BLA کے خودکش حملہ آوروں کو کیسے مارا ؟

بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کرنے والے بی ایل اے کے دہشت گردوں سے یرغمالی مسافروں کو رہا کروانے کے لیے پاکستان آرمی کے سپیشل سروسز گروپ سے تعلق رکھنے والی ضرار کمپنی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جس نے کامیابی سے خودکش حملہ آوروں سمیت 33 دہشتگردوں کو جہنم رسید کیا۔

ضرار کمپنی کے ایس ایس جی کمانڈوز جدید ترین ہتھیاروں، انٹیلیجنس ٹیکنالوجی اور جنگی مہارت رکھتے ہیں، جس کے باعث یرغمالیوں کو محفوظ طریقے سے نکالنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، بلوچستان میں ہونے والا آپریشن بظاہر خاصا پیچیدہ تھا، لیکن اسے کامیابی کیساتھ سر انجام دیا گیا۔بلوچستان کے علاقے بولان پاس کے قریب ’جعفر ایکسپریس‘ پر ہونے والے حملے کے لگ بھگ 36 گھنٹوں بعد پاک فوج کے ترجمان نے رات گے یرغمالی مسافروں کو بازیاب کروانے اور آپریشن مکمل ہونے کا اعلان کیا۔

بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق جب پاک فوج کی جانب سے کلیئرنس آپریشن کے خاتمے اور تمام مغوی مسافروں کی بازیابی کا اعلان کیا گیا تو بہت سے افراد نے آپریشن کی تکمیل میں 36 گھنٹے لینے پر سوالات اٹھائے، جبکہ فوج اور حکومت کے عہدیداروں کی جانب سے اس ضمن میں وضاحتیں بھی دی گئیں۔ پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ’دنیا نیوز‘ کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں یرغمالی صورتحال کے باعث بہت احتیاط سے یہ آپریشن کرنا پڑا تاکہ کسی بھی مسافر کو نقصان نہ ہو۔

فوجی ترجمان نے ٹی وی پروگرام کے دوران میزبان سے گزارش کر کے ایک ویڈیو بھی چلوائی۔ انھوں نے کہا کہ ’ویڈیو میں دیکھیں تو آپ کو تین مختلف رنگوں کے تین بلاک نظر آئیں گے، یہ وہ جگہ ہے جس کے بارے میں ہم آپ کو سکیورٹی ذرائع سے خبر بھی دے رہے تھے کہ شدت پسندوں نے ٹولیوں کے اندر مسافروں کو بٹھا رکھا تھا۔ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’مسافروں کے درمیان میں خودکش بمبار بیٹھے ہوئے تھے، یہی وجہ تھی کہ ہمارے ایس ایس جی کمانڈوز بہت احتیاط سے کلیئرنس آپریشن کر رہے تھے تاکہ مسافروں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔

فوج کے ترجمان نے بتایا کہ فائنل کلئیرنس آپریشن میں ایس ایس جی کے کمانڈوز نے خودکش بمباروں کو نشانہ بنایا جس کے بعد یرغمالی مسافر بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔  وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپریشن 36 گھنٹوں پر محیط اسلیے رہا کہ یرغمالیوں کی موجودگی میں بغیر کسی جانی نقصان کے نکلنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا یہ ہمارے کمانڈوز کی مہارت ہے کہ انھوں نے آپریشن کے دوران کوئی جانی نقصان نہیں ہونے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جن 21 ٹرین مسافروں کی جانیں گئیں وہ آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی مارے جا چکے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ تمام لوگ فوجی جوان تھے جو چھٹیوں پر اپنے گھروں کو جا رہے تھے، انہیں چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔

ان بیانات کے بعد یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آخر یرغمالیوں کی موجودگی کے باعث آپریشنز میں تاخیر کیوں ہوتی ہے اور کیا ایسی صورتحال میں ایک ریگولر فوجی آپریشن ممکن ہوتا ہے؟ بی بی سی نے اس بارے میں سابق فوجی اہلکاروں سے بات کی جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ تاہم اُن کا کہنا ہے کہ ایسے کسی بھی واقعے، جس میں شہریوں کو یرغمال بنایا گیا ہو، میں ہونے والی فوجی کارروائی مکمل طور پر مختلف طریقے سے کی جاتی ہے۔ پاکستان میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ فوج کو ایک ایسا آپریشن کرنا پڑے جس میں یرغمالیوں کی زندگی بچانی ہو۔ ایسے آپریشنز میں ریگولر ٹروپس یعنی عام فوجی دستوں کی بجائے افواج کے ایس ایس جی کمانڈوز حصہ لیتے ہیں۔ سابق افسران کے مطابق پاکستان آرمی کے سپیشل سروسز گروپ یا ایس ایس جی کے اینٹی ٹیررسٹ یونٹ کی ’ضرار کمپنی‘ یرغمالیوں کی بازیابی اور انسداد دہشت گردی کے مشن میں مہارت رکھتی ہے اور انھوں نے ہی کالعدم بی ایل اے کی طرف سے ہائی جیک کی گئی ٹرین اور اس کے مسافروں کی بازیابی ممکن بنائی۔

ایک سابق ایس ایس جی اہلکار نے بتایا کہ ’یرغمالیوں کی بازیابی کے فوجی آپریشنز انتہائی پیچیدہ اور حساس نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اِن آپریشنز میں ’جدید انٹیلیجنس، محتاط حکمت عملی اور نہایت مہارت کے ساتھ فوجی کارروائی‘ شامل ہوتی ہے۔ اُن کے مطابق ’جب یرغمال بنانے کی کوئی کارروائی سامنے آتی ہے تو سب سے پہلے انٹیلیجنس ادارے جیسے کہ آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی علاقے کا مکمل تجزیہ کرتے ہیں۔ پہلے یہ مشکل کام تھا اور مخبروں کی مدد سے کیا جاتا تھا، مگر اب ڈرون، سیٹلائٹ مانیٹرنگ نے بہت آسانی پیدا کر دی ہے۔‘ اُنکے مطابق اِن ذرائع سے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ علاقے کی نوعیت کیا ہے، دہشت گردوں کے پاس کتنے ہتھیار ہیں، وہ کہاں کہاں موجود ہیں اور یرغمالیوں کی صورتحال کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بعض پیچیدہ صورتوں میں اگر ممکن ہو تو مذاکرات کی کوشش بھی کی جاتی ہے تاکہ یرغمالیوں کو بغیر فوجی کارروائی کے بازیاب کروایا جا سکے۔

لیکن اگر مذاکرات ناکام ہو جائیں یا یرغمالیوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو تو پھر فوج ایک براہ راست آپریشن کی تیاری کرتی ہے۔ ایس ایس جی کے سابق فوجی افسر نے بتایا کہ پاکستانی فوج کی ’ضرار کمپنی ان آپریشنز کی تیاری انتہائی مہارت کے ساتھ کرتی ہے۔ ہماری تمام پلاننگ کی بنیاد زیرو کیژویلٹی ہے یعنی کوئی ایک بندہ بھی جاں بحق نہیں ہونا چاہیے۔ دوسرا ہمارا احتساب کا نظام بھی ہے اور ایک بھی یرغمالی کی جان چلی گئی تو طویل انکوائری بھگتنا پڑتی ہے اور اس منصوبہ بندی میں شامل تمام افراد جوابدہ ہوتے ہیں۔ لیکن ایسے آپریشنز میں سکیورٹی فورسز کے لیے سب سے بڑا چیلنج تب  پیش آتا ہے جب دہشت گردوں کی جانب سے یرغمالیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جائے۔

یاد رہے کہ سکیورٹی ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ جعفر ایکسپریس کے واقعے میں بھی شدت پسند یرغمالیوں کو بطور انسانی ڈھال استعمال کر رہے تھے۔ سابق فوجی اہلکار کے مطابق ’اس لیے ایسے آپریشن میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ فورسز کو انتہائی محتاط ہو کر کارروائی کرنا پڑتی ہے تاکہ یرغمالیوں کو کسی بھی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔ بعض اوقات دہشت گرد یرغمالیوں کو دھمکی کے طور پر قتل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ فورسز کو روکا جا سکے۔ اس کے علاوہ بعض معاملات میں حملے کے مقام پر خودکش بمبار موجود ہوتے ہیں یا بارودی سرنگیں بچھائی جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے بم ڈسپوزل سکواڈ بھی آپریشن کے ساتھ ساتھ اس ایریا کو کلیئر کرتا ہے۔

سیکیورٹی ادارے بلوچ دہشت گردوں کو قابو کرنے میں ناکام کیوں ؟

سابق فوجی اہلکاروں سے اکٹھی کی گئی معلومات کے مطابق یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے کیے جانے والے فوجی آپریشنز میں سب سے پہلے علاقے کو مکمل طور پر گھیرے میں لیا جاتا ہے اور ماہر نشانے بازوں کو تعینات کیا جاتا ہے تاکہ کسی بھی خطرناک موومنٹ کو روکا جا سکے۔ اس کے بعد ضرار کمپنی کے اہلکار مخصوص مقامات سے اندر داخل ہونے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں تاکہ دہشت گردوں کو فرار ہونے یا یرغمالیوں کو نقصان پہنچانے کا موقع نہ ملے۔ حملے کے دوران فورسز بعض اوقات فلیش بینگز، سموک گرینیڈز اور صوتی دھماکوں کا استعمال بھی کرتی ہیں تاکہ دہشت گردوں کو الجھایا جا سکے اور یرغمالیوں کی محفوظ بازیابی ممکن ہو سکے۔ اس موقع پر خودکش بمباروں کو سب سے پہلے نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ وہ کوئی بڑا نقصان نہ پہنچا سکیں، جبکہ دیگر دہشت گردوں کو مارنے یا گرفتار کرنے کے بعد یرغمالیوں کو بحفاظت نکالا جاتا ہے۔ یہی فارمولا جعفر ایکسپریس کے یرغمالی مسافروں کو رہا کروانے کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔

Back to top button