تحریک انصاف انتشار کا شکار ہونے کے بعد زوال کی جانب گامزن

پاکستان کی سیاست ہمیشہ سے غیر متوقع موڑ لیتی رہی ہے۔ ماضی میں مسلم لیگ (ق) اور دیگر جماعتوں کا عروج و زوال ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ رہا ہے جبکہ اب تحریک انصاف بھی اسی راہ پر گامزن نظر آتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ، سیاسی جوڑ توڑ، ادارہ جاتی دباؤ، اور داخلی انتشار نے پی ٹی آئی کو ایک سنگین بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔ پارٹی میں مرکزی رہنما باہمی دست و گریبان ہیں جبکہ پارٹی اجلاسوں میں اختلافات کی خبروں کے بعد اب عمرانڈو رہنما سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے کپڑے اتارتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ پارٹی میں گروپنگ اور تقسیم بھی اپنے پنجے گاڑ چکی ہے جس کے بعد جلد یا بدیر عمران خان کی پارٹی کا شیرازہ بکھرنا یقینی ہو چکا ہے۔
تاہم دوسری جانب عمرانڈو قیادت نے پارٹی کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچانے اور باہمی اختلافات کو کم کرنےکیلئے سخت اقدامات کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی نے عمران خان کیساتھ ملاقات کی تفصیلات اور ہدایات میڈیا کو جاری کرنے، ایک دوسرے کیخلاف ہر قسم کی مخالفانہ بیان بازی اور الزام تراشی پر پابندی عائد کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ان ہدایات کی خلاف ورزی کرنے والے پارٹی رہنماؤں کو شوکاز نوٹس کیساتھ پارٹی عہدہ سے برطرف کر دیا جائیگا ، عمران خان کے حکم کے مطابق ان سے ملاقات کرنے والی شخصیات انکی ہدایات تحریری طور پر پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کو دینگے اور وہ تحریری ہدایات و بیانات صرف اور صرف مرکزی سیکرٹری اطلاعات ہی جاری کرنے کے مجاز ہوں گے انکے علاوہ کسی بھی بیان کو مصدقہ نہیں سمجھا جائیگا۔پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے عمران خان سے ملاقات کرنے والے افراد کو ملاقات کی تفصیلات یا ہدایات پر میڈیا سے بات چیت کرنے سے سختی سے منع کر دیا ہے ،عمران خان کے حکم کے مطابق ان سے ملاقات کرنے والی شخصیات کو عمران خان کی جانب سے دی گئی ہدایات کو تحریری طور پہ پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کو دینے کا پابند کر دیا ہے۔
تاہم مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی رہنماؤں کے مابین اختلافات کی خلیج اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ایسے احکامات اور ہدایات کے باوجود عمرانڈو رہنمائوں کا باہمی الزام تراشی اور بہتان بازی سے پیچھے ہٹنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
ذرائع کا دعوی ہے کہ پارٹی میں بڑھتے ہوئے انتشار کی وجہ سے تحریک انصاف کے اندر سے بڑی تعداد میں اہم رہنما پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ خاص طور پر پانچ اہم وکلا، جن میں قانونی ماہرین شامل ہیں، پارٹی سے علیحدہ ہونے کو تیار ہیں۔ اس کے علاوہ، پنجاب سے 21 ایم پی اے اور وفاق سے 15 ایم این ایز بھی تحریک انصاف سے کنارہ کشی اختیار کرنے کو ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس علیحدگی کا باقاعدہ اعلان 9 مئی کے فیصلے کے بعد متوقع ہے۔
مبصرین کے مطابق خیبرپختونخوا تحریک انصاف کا مضبوط گڑھ رہا ہے، لیکن یہاں بھی اختلافات واضح ہو چکے ہیں۔ علی امین گنڈاپور کی قیادت میں ایک نیا سیاسی دھڑا ابھر رہا ہے۔ خیبر پختونخوا میں 27 ایم پی ایز پر مشتمل یہ گروپ عمران خان سے فاصلہ اختیار کر سکتا ہے اور علی امین گنڈا پور کے حق میں کھڑا ہو سکتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت خیبر پختونخوا کی حکومت کو سپورٹ کرنے کے لئے تیار نظر آتی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کی حکمت عملی یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو مکمل طور پر تنہا کر دیا جائے اور اس کی باقی ماندہ قیادت کو بھی بکھیر دیا جائے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان کے لئے اس وقت دو آپشنز باقی ہیں۔ یا تو وہ ملک چھوڑ کر بیرون ملک جا سکتے ہیں اور وقتی طور پر سیاسی منظرنامے سے غائب ہو سکتے ہیں، یا پھر اپنے بیانات اور مؤقف سے پیچھے ہٹ کر اپنی سیاسی غلطیوں کو تسلیم کر سکتے ہیں۔ تاہم، عمران خان کی سیاسی شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، دوسرا آپشن ان کے لئے مشکل دکھائی دیتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق موجودہ حکومت کی گرفت مضبوط ہونے کے بعد پاکستان کی سیاست ایک نیا رخ اختیار کر رہی ہے۔ تحریک انصاف، جو کبھی عوامی حمایت کا ایک بڑا مرکز تھی، اب داخلی انتشار اور بیرونی دباؤ کا شکار ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادی مضبوط پوزیشن میں آ چکے ہیں، جبکہ پیپلز پارٹی بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ پاکستان کی سیاست کا اگلا موڑ کیا ہوگا، لیکن ایک بات واضح ہے۔ سیاست میں کوئی بھی جماعت ہمیشہ کے لئے ناقابل شکست نہیں ہوتی۔ جو پارٹیاں عوامی مسائل کے حل کے بجائے ذاتی اور جماعتی مفادات میں الجھتی ہیں، وہ جلد یا بدیر زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔ مسلم لیگ (ق) اور اب تحریک انصاف اس کی تازہ مثالیں ہیں۔ مستقبل میں بھی جو جماعت عوام کی حقیقی امنگوں کو نظرانداز کرے گی، وہ اسی انجام سے دوچار ہوگی۔
اختر مینگل اور بلوچستان حکومت : دونوں بند گلی میں کیوں پھنس گے ؟
مبصرین کے مطابق تحریک انصاف کا زوال ایک بڑی سیاسی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اگر عمران خان کوئی غیر متوقع فیصلہ نہیں کرتے، تو پارٹی کا شیرازہ بکھرنے کے واضح امکانات موجود ہیں۔ خیبرپختونخوا میں علی امین گنڈاپور کا ابھرتا ہوا کردار، پنجاب اور وفاق میں پارٹی کے اہم رہنماؤں کی علیحدگی، اور حکومت کی مضبوط ہوتی ہوئی گرفت یہ سب عوامل تحریک انصاف کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔