اپوزیشن کے خلاف حکومت کا غداری کارڈ کتنا موثر ثابت ہوگا؟

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کے اعلان کے بعد سے حکمران جماعت نے حزب مخالف کی قیادت کو دبانے کے لیے غداری کارڈ کا بھر پور استعمال شروع کر دیا ہے۔
پاکستان میں محب وطن سیاستدانوں اور صحافیوں پرغداری اور بغاوت کے مقدمات اور الزامات کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مقتدر قوتیں جب اہنے مفادات اورخواہشات کی تکمیل میں ناکام ہوتی نظر آتی ہیں اور ان کے پاس اپنے حریفوں کو دبانے کا کوئی سیاسی چارہ باقی نہیں بچتا تو پھر سیاسی مخالفین پر ملک دشمنی اور بغاوت کے الزامات عائد کر دئیے جاتے ہیں جیسا کہ اب ہو رہا یے۔
حالیہ دنوں لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی جماعت کے 40 کے لگ بھگ رہنماؤں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج ہوا اور حکومتی مشیروں نے ن لیگ پر انڈیا سے رابطوں کا الزام عائد کیا تو اپوزیشن کی نے کہا کہ حکومت اس کے خلاف غداری کارڈ استعمال کر رہی ہے۔ تاہم یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی سیاسی کارڈ کے استعمال کا الزام عائد کیا گیا ہو۔ درحقیقت جب بھی ملک میں سیاسی محاذ گرم ہوتا ہے اور مقتدر حلقوں کی طرف سے اپنے سیاسی حریفوں کو دباؤ میں لانے کیلئے کسی نہ کسی کارڈ کے استعمال کی بازگشت شروع ہو جاتی ہے۔ کبھی مذہب کارڈ استعمال کیا جاتا ہے تو کبھی غداری کارڈ، کبھی کرپشن کارڈ موثر قرار پاتا ہے تو کبھی بھارت دوست، غرضیکہ حالات و واقعات کے مطابق کارڈز کے استعمال میں تبدیلی لائی جاتی ہے۔
تاہم عوامی حلقوں میں ایک سوال زیر گردش رہتا ہے کہ آخر یہ کارڈ کہاں سے آتے ہیں؟ یہ کارڈ کتنے موثر ہوتے ہیں اور کب ایکسپائر ہوتے ہیں۔عام خیال یہ ہے کہ تاش کے پتوں یا کارڈز کو جس طرح اپنے حق میں استعمال کر کے بازی جیتی جاتی ہے اسی طرح سیاسی کارڈز کا استعمال بھی مخالفین کو مات دینے کے لیے ہی کیا جاتا ہے۔اس حوالے سے سیاسی امور کے ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ کارڈز سیاسی ایشوز کی علامت ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں یہ اندازہ کرتی ہیں کہ کسی خاص وقت میں کون سے ایشوز ان کے بیانیے کو تقویت دیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ دیکھتی ہیں کہ سیاسی اور سماجی حلقوں کی خواہشات یا توقعات کیا ہیں پھر ان کے مطابق اپنے بیانیے یا کارڈ کو تشکیل دیا جاتا ہے۔ سیاست دان ان کارڈز کو اپنی ساکھ کو بحال کرنے اور عوام میں اپنی مقبولیت کو بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں مذہب اور غداری کے کارڈز سب سے خطرناک سمجھے جاتے ہیں۔ سنہ 1947 میں پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ نے کئی سیاسی کارڈز استعمال کیے ہیں۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق ملک بنتے ہی کرپشن کارڈ کو استعمال کیا گیا اور اسی وجہ سے سنہ 1949 میں ہی اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے پروڈا کے نام سے ایک قانون لاگو کیا جس کے تحت کرپشن کے الزام پر سیاست دانوں کو نااہل کیا جا سکتا تھا۔ یہ کارڈ آج بھی سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔
اسی طرح مشرقی پاکستان کے رہنماؤں کے خلاف غداری کارڈ بھی شروع سے ہی استعمال کیا گیا ۔ سہیل وڑائچ کے مطابق ہمیشہ بڑے صوبوں کی جانب سے یہ کارڈ چھوٹے صوبوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ مغربی پاکستان جب بڑا صوبہ تھا تو اس کی جانب سے چھوٹے صوبے یعنی مشرقی پاکستان کے خلاف اس کارڈ کا استعمال 1954 کے انتخابات میں کیا گیا تاہم یہ کارڈ نہیں چلا اور مشرقی پاکستان کا سیاسی اتحاد ’جگتو فرنٹ‘ بھاری اکثریت سے جیت گیا تھا۔ بعد میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بڑے صوبے پنجاب کی طرف سے دوسرے صوبوں کے خلاف اسے استعمال کیا گیا تاہم اب پہلی بار پنجاب کی قیادت کے حوالے سے بھی اس کارڈ کا استعمال ہوا ہے تاہم پنجابی کو غدار کہنا مشکل ہو جاتا ہے۔
لیکن پاکستان میں زیادہ تر غداری کارڈ استعمال کیا گیا جسے کبھی قرارداد پاکستان پیش کرنے والے اے کے فضل الحق کے خلاف استعمال کیا گیا تو کبھی مادر ملت فاطمہ جناح کے خلاف اور کبھی تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کرنے والے سندھی رہنما جی ایم سید کے خلاف۔ اس کے علاوہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے لسانی اور صوبائی کارڈز بھی استعمال کیے۔
جنرل ضیاالحق نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد سندھ میں اپنے خلاف پائے جانے والی نفرت کا مقابلہ کرنے کے لیے لسانی تنظیم ایم کیو ایم کو پروان چڑھایا۔ اسی طرح جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم بننے لگیں تو ’جاگ پنجابی جاگ‘ کے نعرے کو فروغ دیا گیا۔ تاہم محترمہ بے نظیر بھٹو نے کبھی سندھ کارڈ کی بات نہیں کی تھی۔ جب محترمہ کی شہادت کے بعد پاکستان ملک گیر ہنگاموں کی لپیٹ میں آگیا اور اس کی وحدت کو خطرات لاحق ہوگئے تو ان کے شوہر آصف زرداری نے سندھ کارڈ کھیلنے کی بجاۓ پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔
تاہم تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ موجودہ حالات میں اپوزیشن کی جانب سے حکومت مخالف تحریک شروع کیے جانے کے بعد مخالفین کے خلاف غداری کارڈ کا استعمال بالکل بھی کار آمد ثابت نہیں ہوگا کیونکہ یہ اب اپنی وقعت کھو چکا ہے اور لوگ جانتے ہیں کہ غدار کون ہیں اور غداری کے الزام لگانے والے کون ہیں؟