کیا 2014 میں ایبولاوبا لیبارٹری سے پھیلی تھی؟

ایک حالیہ تجزیے میں انکشاف ہوا ہے کہ 2014 میں پھیلنے والی اِیبولا وباء امریکی حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والی فیسلیٹی سے حادثاتی طور پر لیک ہوئی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق یونیورسٹی آف وِنسکونسِن کے سابق محقق اور وائرولوجسٹ ڈاکٹر جونیتھن لیتھم اور صحافی سیم حسینی کے مطابق مغربی افریقا میں پھیلنے والی وباء کے آفیشل ٹائم لائن میں متعدد تضاد موجود ہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ وائرس سیئرا لیون کے شہر کینیما میں ایک تجربہ گاہ سے معمول کی تحقیقی سرگرمیوں کے دوران نکلا۔ اس وقت یہ تجربہ گاہ لاسا فیور پر امریکی مالی اعانت سے کام کر رہی تھی۔

رپورٹس کے مطابق یہ لیب ایبولا جیسے ہیمریجک وائرس کے لیے مخصوص تھی۔ البتہ یہ بات واضح نہیں کہ آیا اس لیب میں وباء کا سبب بنے والا پیتھوجین تھا یا نہیں۔بہت سے ماہرین کا اب بھی ماننا ہے کہ ایبولا لیب سے تقریباً 282 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ملک گِنی میں جانوروں میں پھیلا۔ جب ایبولا کا پہلا کیس سامنے آیا تو چمگادڑوں کو اس وائرس کا مرکز بتایا گیا لیکن محققین کو کبھی حقیقی مرکز کا علم نہیں ہوسکا۔

مصنفین کا کہنا تھا کہ ابھی تک اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ مغربی افریقا میں یہ وائرس کسی جانور سے پھیلا۔ یہ وائرس اچانک اس خطے میں نمو دار ہوا جو غیر متوقع تھا اور ابھی تک ناقابلِ وضاحت ہے۔ مزید یہ کہ گِنی اور سیئرا لیون میں کی جانے والی تحقیقات بے نتیجہ رہیں اور ناقابلِ یقین تھیں۔

ماہرین نے بتایا کہ تاہم، وہاں ایک اسپل اوور واقعہ ہوا جو تجربہ گاہ سے مطابقت رکھتا ہے۔ وہاں وائرل ہیمرجک بخار کے لیے مختص لیب کے قریب ایک تحقیقی لیبارٹری تھی۔ یہ وائرل ہیمرجک فیور کی لیب میں اِیبولا وائرس تھا یا نہیں یہ تو واضح نہیں لیکن اس کا بائیو سیفٹی ریکارڈ یقینی طور پر مشکوک تھا۔ یہ تمام شواہد لیب کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔

Related Articles

Back to top button