ناقابلِ اشاعت چند معروضات!
تحریر:عطا الحق قاسمی۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ جنگ
میں جب کبھی جہاز پر سفر کرتا ہوںتو بس یوں سمجھیں کہ ہر بار ایک احساسِ ندامت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ جہاز پر سفر کی آسائش سب کو حاصل کیوں نہیں بلکہ اس لئے کہ سیکورٹی والے تلاشی بہت لیتے ہیں۔ تلاشی سے فراغت کے بعد میں ہر بار آئینے میں اپنی شکل دیکھتا ہوں اور یقین جانیں میں کچھ اتنا زیادہ مشکوک نہیں لگتا کہ سیکورٹی والوں کو اتنی کاوش کے ساتھ تلاشی لینے کی ضرورت محسوس ہو۔ دوسرا اس میٹل ڈی ٹیکٹر کی بھی سمجھ نہیں آتی جو سیکورٹی والوں کے ہاتھ میں ہو تو خاموش ہوتا ہے لیکن جب میرے جسم سے مس ہوتا ہے تو لگتا ہے جیسے میں نے جیب میں توپ نصب کی ہو، اس جاسوس آلے پر اس لئے بھی غصہ زیادہ ہے کہ اس کا سارا شور و غوغا بےبنیاد ہوتا ہے یعنی جیب میں میٹل کی کوئی چیز نہ بھی ہو تو اتنا واویلا کرتا ہے کہ کیبن کے پاس کھڑا گن مین اپنی پوزیشن سنبھال لیتا ہے۔ ایک دفعہ کچھ اسی قسم کی صورتحال میں سیکورٹی والے نے جیب سے سب کچھ نکالنے کو کہا جب کہ جیب میں رکھے واحد کاغذ پر حبیب جالب ایک کی تازہ غزل درج تھی چنانچہ سچ پوچھیں تو مجھے یہ میٹل ڈی ٹیکٹر اور کچھ تجزیہ نگار ہمزاد لگتے ہیں جو ہر وقت خطرے کی دہائی دینے میں لگے رہتے ہیں۔
چلیں اس جاسوس آلے کو تو دفع کریں کہ صرف شور ہی تو مچاتا ہے لیکن اس کی عدم موجودگی میں سیکورٹی والے جب ہاتھوں سے تلاشی لیتے ہیں اور پورے جسم کا کونہ کھدرا چھان مارتے ہیں اس وقت مختلف قسم کی ندامتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ مثلاً کئی دفعہ ان کے ہاتھ لگانے سے اتنی گدگدی محسوس ہوتی ہے کہ ہنسی روکے نہیں رکتی نیز بعض صورتیں ایسی ہیں کہ کبھی ہمیں ندامت ہوتی ہے اور کبھی بیچارے سیکورٹی والے نادم ہو کر رہ جاتے ہیں یعنی ’’آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی شرمسار کر‘‘ والی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیکورٹی والوں کی دوسری ندامتوں کے علاوہ ایک ندامت یہ ہے کہ وہ ہم جیسے گنہگار کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور ہمیں ندامت اپنی طبعی منکسر المزاجی کی وجہ سے ہوتی ہے حالانکہ اب تک ہمیں اس کا عادی ہو جانا چاہئے کیونکہ صدیوں سے ہمارے بزرگوں کے گھٹنے ازراہِ عقیدت چھوئے جا رہے ہیں اور یوں ہمیں سیکورٹی والوں کے اس عمل کو شک کی نگاہوں سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ سیکورٹی والے تو اپنی اس ڈیوٹی میں اتنے فرض شناس واقع ہوئے ہیں کہ گزشتہ دنوں انہوں نے بغرض تلاشی ایک مولانا کی دستار اتاری تھی جس پر مولانا بہت ناراض ہوئے کیونکہ یہ دوسرا موقع تھا جب ان کی دستار اتاری گئی ویسے ممکن ہے دستار اتارتے وقت سیکورٹی والوں کا مقصد تلاشی لینا نہ ہو بلکہ ایسا کرتے وقت انہوں نے مولانا کو مخاطب کرکے بزبانِ حال یہ شعر بھی پڑھا ہو۔
آپ دستار اتاریں تو کوئی فیصلہ ہو
لوگ کہتے ہیں کہ سر ہوتے ہیں دستاروں میں
یعنی سر تو دستار کے نیچے ہوتے ہیں لیکن وہ اس سر کی زیارت کرنا چاہتے ہوں جس میں فسادبین المسلمین کا سودا سمایا ہوا ہے تاہم مولانا کی ناراضی اپنے طور پر بجا تھی کیونکہ یہ تو خوشی کے سودے ہوتے ہیں اس میں زبردستی نہیں چلتی۔
اوپر کی سطور سے ممکن ہے قارئین کو یہ تاثر ملا ہو کہ میں اس جامہ تلاشی کے خلاف ہوں حاشا وَ کلاّ ایسا نہیں ہےان سطور سے براہ کرم یہ نہ سمجھیں کہ میں اس جامہ تلاشی کے خلاف ہوں بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ اس کا دائرہ وسیع کرکے زندگی کے مختلف شعبوں تک پھیلا دینا چاہئے۔ مثلاً کوئی ایسا طریقہ کار دریافت کرنا چاہئے کہ صاحبانِ اقتدار کے ذہن کی ’’جامہ تلاشی‘‘ ہو سکے تاکہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ ان کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں ہے وہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرنے والے ہیں۔ اسی طرح اپوزیشن کے رہنمائوں کی ذہنی جامہ تلاشی بھی بہت ضروری ہے تاکہ فرائی پین سے نکل کر چولہے میں گرنے کی نوبت نہ آئے، اخباروں میں چھپنے والے اداریوں، تبصروں، کالموں اور خبروں کی ’’جامہ تلاشی‘‘ بھی ہونی چاہئے ۔یقین جانیں کرائے کے تخریب کار رنگے ہاتھوں پکڑے جائیں گے غرضیکہ یہ جامہ تلاشی زندگی کے ہر شعبے میں بہت ضروری ہے اس پر بہت دنگا فساد ہوگا لڑائی مار کٹائی کی نوبت بھی آ سکتی ہے لیکن اس جامہ تلاشی کا عمل مکمل ہونے کے بعد ہر طرف سکون ہی سکون ہوگا اور اس کے نتیجے میں کوئی ’’ہائی جیکر‘‘ ہمارے ملک اور ہماری قوم کو ہائی جیک نہیں کر سکے گا۔ کوئی ’’عامل‘‘ ایک دفعہ جامہ تلاشی کا یہ ’’عمل ‘‘ کرکے تو دیکھے۔