عمران کو سوال نافرمانی تحریک سے پہلے KP حکومت چھوڑنے کا مشورہ

تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ 14 دسمبر سے شروع کی جانے والی سول نافرمانی کی تحریک کامیاب بنانے کے لیے خیبر پختون خواہ حکومت سے دستبرداری کا اعلان کر دیا جائے تاکہ ملک میں ایک بحرانی صورتحال پیدا ہو جائے۔ تاہم دوسری جانب پارٹی میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے عمران خان کو یاد دلایا ہے کہ ماضی قریب میں انہوں نے پنجاب اسمبلی توڑ کر جو غلطی کی تھی اس کا خمیازہ تحریک انصاف اج دن تک بھگت رہی ہے۔

سینیئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز خیبر پختونخوا حکومت سے دستبرداری کے اعلان سے کیا جائے، یاد رہے کہ بانی پی ٹی آئی نے 14 دسمبر سے سول نافرمانی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن یہ اعلان درحقیقت ان کا آخری پتہ ہے جو ناکام رہا تو عمران کے پلے کچھ باقی نہیں بچے گا۔ لہذا پارٹی میں کچھ لوگ ایسے بھی موجود ہیں جو عمران خان کو سول نافرمانی کی کال واپس لینے کا مشورہ دے رہا ہے کیونکہ 2014 میں ان کی سول نافرمانی کی کال ناکامی کا شکار ہو چکی ہے۔

یاد رہے کہ عمران نے 14 دسمبر سے سول نافرمانی کی کال دیتے ہوئے اوورسیز پاکستانیوں سے کہا ہے کہ وہ اہنی تمام تر ترسیلات زر بیکنگ سسٹم کی بجائے ہنڈی کے ذریعے پاکستان بھیجیں تاکہ حکومتی خزانے میں کچھ نہ جائے۔ اس سے۔پہلے جب سال 2018 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا تو عمران خان کو احساس ہو گیا تھا کہ انہوں نے بہت بڑی غلطی کی تھی اور انہیں اوورسیز پاکستانیوں کو اس طرح کی کال نہیں دینا چاہئے تھی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے دوبارہ سول نافرمانی کی کال اس لیے دی ہے کہ وہ اپنی فائنل احتجاج کی کال ناکام ہونے کے بعد سخت دباؤ اور ڈیپریشن میں ہیں۔

عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ سے جاری پیغام میں تحریکِ انصاف کے سیاسی قیدیوں کی رہائی اور نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی شفاف تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ہے اور مطالبات نہ ماننے کی صورت میں 14 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک اور بائیکاٹ مہم کا اعلان کیا گیا ہے۔ بیان میں بتایا گیا ہے کہ سول نافرمانی کی تحریک دو مراحل پر محیط ہو گی جس کے پہلے مرحلے میں ’بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کریں گے کہ وہ ترسیلاتِ زر محدود کریں اور بائیکاٹ مہم چلائیں‘ جبکہ دوسرے مرحلے میں ’اس سے بھی آگے جائیں گے۔‘

عمران خان کے اکاؤنٹ سے جاری ہونے والا بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ایک روز پہلے ان پر جی ایچ کیو حملہ کیس میں فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔ دوسری جانب بیان میں ’سٹیک ہولڈرز سے‘ مذاکرات کی بات بھی کی گئی ہے اور اس سلسلے میں تشکیل دی گئی کمیٹی میں عمر ایوب خان، علی امین گنڈاپور، صاحبزادہ حامد رضا، سلمان اکرم راجہ اور اسد قیصر شامل ہوں گے۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے جب عمران خان کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک چلانے اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے ترسیلاتِ زر ملک میں نہ بھیجنے کی بات کی گئی ہے۔ اس سے قبل 2014 کے اسلام آباد دھرنے کے دوران بھی عمران خان کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا تھا، تاہم یہ کال مکمل ناکام رہی تھی۔ اس تاریخ کے دوران عمران خان نے عوام کو بجلی کے بل جمع نہ کروانے کی ہدایت کی تھی اور خود بھی زمان پاک والے گھر کی بجلی کا بل جمع نہیں کروایا تھا۔ تاہم جیسے ہی ان کے گھر کی بجلی کاٹی گئی عمران خان نے فورا بجلی کا بل ادا کر دیا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ عمران نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے مطالبات پورے نہ کرنے کی صورت میں احتجاج کی بجائے ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دی یے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کال کا مقصد بھی حکومت کو مذاکرات پر مجبور کرنا ہے تاکہ انکے ساتھی عمران خان کو جیل سے باہر لانے کا کوئی راستہ تلاش کر سکیں۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران کی اسلام اباد احتجاج کی فائنل کال ناکام ہونے کے بعد اب حکومت پر ایسا کوئی دباؤ نہیں کہ وہ پی ٹی ائی کے ساتھ مذاکرات پر مجبور ہو جائے۔ لہذا زیادہ امکان یہی ہے کہ سول نافرمانی کی کال بھی احتجاجی کال کی طرح ناکامی کا شکار ہو جائے گی۔

عمران کی جانب سے سول نافرمانی کی کال واپس لینے کا امکان

سیاسی تجزیہ کار یاد دلاتے ہیں کہ اگست 2014 میں اسلام آباد میں حکومت مخالف لانگ مارچ کے بعد دھرنا دینے والے تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کو مستعفیٰ ہونے کے لیے دو دن کی مہلت دی تھی۔ عمران نے تب اسے اپنی زندگی کی سب سے اہم تقریر قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم سول نافرمانی کی مہم شروع کریں اور جب تک نوازشریف استعفیٰ نہیں دیتے ہم ٹیکس نہیں دیں گے کیونکہ اگر ہم نے ٹیکس ادا کیا تو یہ کرپٹ حکمران اسے کھا جائیں گے۔‘

انکا کہنا تھا کہ ’آج سے میں نہ ٹیکس دوں گا، نہ بجلی اور گیس کے بل دوں گا۔ اگر آپ نے اپنے آپ کو اس بدعنوان وزیراعظم سے بچانا ہے تو ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا۔‘ یہ کہتے ہوئے انھوں نے خطاب کے دوران ہی بظاہر بجلی کا بل جلا دیا تھا۔ تاہم نہ تو یہ تحریک کامیاب ہوئی تھی اور نہ ہی اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف مستعفی ہوئے تھے بلکہ تحریکِ انصاف ایک طویل دھرنا دینے کے بعد اسے آرمی پبلک سکول حملے کے بعد ختم کرنا پڑا تھا۔

Back to top button