کیا احمدی نژاد کو ایرانی صدارت کا الیکشن لڑنے کی اجازت ملے گی؟

سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے 28 جون کو ایران میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا انہیں ایک بار پھر ملکی اسٹیبلشمنٹ انتخاب کے لیے ناہل تو قرار نہیں دے دے گی۔ یاد رہے کہ احمدی نزاد کے دو مرتبہ صدر منتخب ہونے کے بعد تیسری مرتبہ صدارتی امیدواروں کی جانچ پڑتال کرنے والی شوریٰ نگہبان نے اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے نتیجے میں انہیں صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی تھی۔ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر نژاد کو گارڈین کونسل کی طرف سے دابارہ نااہل قرار دیا جاتا ہے، تو بھی وہ ایرانی سیاست کا حصہ تو لازمی رہیں گے۔

یاد رہے کہ احمدی نژاد سادہ زندگی گزارنے کی وجہ سے ایرانی عوام میں کافی مقبول رہے۔ دارالحکومت تہران کے میئر ہونے کے باوجود ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے اور میئر کی سرکاری رہائشگاہ استعمال نہیں کرتے تھے۔ وہ سرکاری گاڑی بھی استعمال نہیں کرتے تھے۔ نژاد کو تہران کے میئر بنے دو سال بھی نہیں گزرے تھے کہ وہ صدارتی انتخابات میں بنیاد پرستوں کے امیدوار بن گئے۔ جب انھوں نے یہ انتخاب لڑنے کا اعلان کیا تب وہ ایران کی قومی سیاست میں کوئی جانا مانا نام نہیں تھے۔ تاہم صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ میں انھوں نے سابق صدر ہاشمی رفسنجانی کے بعد سب سے زیادہ ووٹ لے کر مبصرین کو حیران کر دیا اور یوں دوسرے مرحلے میں وہ ہاشمی رفسنجانی کے مد مقابل آ کھڑے ہوئے۔

شہباز شریف کا وفاقی کابینہ میں توسیع کا فیصلہ، مشاورت جاری

 

احمدی نزاد پہلی مرتبہ 2005 میں صدر منتخب ہوئے۔ اسکے بعد 2008 میں وہ دوسری مرتبہ اس عہدے پر فائز ہوئے۔ وہ 2013 تک ایران کے صدر رہے لیکن پھر ایران کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ سے اختلافات پیدا ہونے کے بعد انہیں اگلے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ملی۔ احمدی نژاد کی صدارت کے دوران ایرانی حکومت کے تمام شعبوں میں فوج کے اثر و رسوخ اور طاقت میں اضافہ ہوا۔ لیکن اس عرصے میں جس طرح خامنہ ای نے روح اللہ خمینی کے قریبی حلقوں کو طاقت کے مراکز سے دور کیا، اسی طرح محمود احمدی نژاد نے بھی وزراء اور معروف لوگوں کو وزارتوں اور سرکاری اداروں سے ہٹانا شروع کر دیا۔ دراصل احمدی نژاد کی دوسری صدارتی مدت کے آغاز سے ہی ان کے اور رہبر اعلی علی خامنہ ای کے درمیان تنازع شروع ہو گیا تھا۔

احمدی نژاد اپنی صدارت کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کی مغرب کے ساتھ جدوجہد کی علامتوں میں سے تب ایک بن گئے، جب ایران کی جوہری اور میزائل ٹیکنالوجی کی ترقی متنازع بنی۔ اقوام متحدہ میں قرآن و حدیث کی آیات سے شروع اور ختم ہونے والی ان کی جذباتی اور مذہبی تقاریر کو دنیا بھر میں خصوصا مسلمان ممالک میں پذیرائی ملی۔ اپنی تقاریر میں سابق صدر نے کئی بار ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں اور بیانات کا مذاق اڑایا اور کہا: ’ایران میں لوگ کہتے ہیں کہ یہ پابندی کیا ہے؟‘ انھوں نے زور دے کر کہا کہ پابندیوں کا ایرانی عوام کی سیاست، معیشت اور زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

2013 میں صدارت سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی محمود احمدی نژاد سیاست نہیں چھوڑ سکے۔2017 میں ایک ویڈیو پیغام میں ملک کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ’معیشت تباہی کے دہانے پر ہے، پورے نظام پر عوام کا اعتماد صفر کے قریب ہے، عدم اطمینان اپنے عروج پر ہے، غربت پھیلی ہوئی ہے، اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ ملک کے تمام حکام، تینوں طاقتیں۔ سب سے بڑھ کر جناب روحانی۔‘ اس دوران انھوں نے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای نے متنبہ کیا کہ احمدی کا الیکشن میں حصہ لینا ’ملک کے مفاد میں نہیں۔ تاہم احمدی الیکشن لڑنے پر مسل رہے تو انہیں بطور صدارتی امیدوار نااہل قرار دے دیا گیا۔

Back to top button