جسٹس عالیہ نیلم کو سنیارٹی کے بر خلاف چیف جسٹس کیوں بنایا گیا؟

لاہور ہائیکورٹ کی لگ بھگ 150 برس کی تاریخ میں گنی چنی خواتین ہی جج بنیں لیکن ان میں سے جسٹس عالیہ نیلم پہلی خاتون ہیں جن کو پہلی خاتون چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی نامزدگی کا اعزاز ملا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اب تک صرف پانچ خواتین لاہور ہائیکورٹ کی جج بننے میں کامیاب ہوئی ہیں۔

پہلی مرتبہ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں لاہور ہائیکورٹ میں خواتین ججز کا تقرر کیا گیا۔ ان میں جسٹس فخرالنسا کھوکھر، شاعر مشرق محمد اقبال کی بہو ناصرہ جاوید اقبال اور سابق وزیر ریحانہ سرور کی بہن طلعت یعقوب لاہور ہائیکورٹ کی جج مقرر ہوئیں۔

مارچ 1996 کے الجہاد ٹرسٹ کیس یعنی المعروف ججز کے فیصلے کی وجہ سے جسٹس فخرالنسا کھوکھر لاہور ہائیکورٹ کے عہدے پر برقرار رہیں جبکہ دیگر دو خواتین ججز کو اپنے عہدوں سے الگ ہونا پڑا۔

پنجاب: محرم الحرام کے پیشِ نظر دفعہ 144 نافذ، ڈبل سواری پر بھی پابندی عائد

سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں لاہور ہائیکورٹ میں دوبارہ ایک خاتون جج کا تقرر ہوا۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جاوید اقبال کی اہلیہ ناصرہ اقبال کو ایک مرتبہ پھر لاہور ہائیکورٹ کی جج مقرر کیا گیا لیکن وہ جج کے عہدے سے سبکدوش ہو گئیں۔

لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس فخرالنسا کھوکھر لاہور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون جج تھیں جو سب سے سینیئر جج کے عہدے پر فرائض رہیں لیکن انھیں لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس نہیں بنایا گیا۔ تاہم جسٹس ریٹائرڈ فخرالنسا کھوکھر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر منتخب ہوئیں اور پھر پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی بنیں۔

وکلا تحریک کے بعد اُس وقت کے ساتھ چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار چودھری نے لاہور ہائیکورٹ میں ایک خاتون جج کا تقرر کیا اور اس طرح جسٹس عائشہ اے ملک لاہور ہائیکورٹ کی جج مقرر ہوئیں۔ان کے بعد جسٹس عالیہ نیلم کو لاہور ہائیکورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔ تاہم بعد ازاں جسٹس عائشہ اے ملک کو سینیارٹی کے اصول کے برعکس سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا اور ان کے تقرر کو ججز کیس کے فیصلے کے منافی قرار دیا گیا۔جسٹس عالیہ نیلم کے بعد لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس ارم سجاد گل کا تقرر کیا گیا لیکن وہ ایڈیشنل جج کی حیثیت سے کام کرتی رہیں اور عہدے کی معیاد ختم ہونے پر سبکدوش ہوگئیں۔

جسٹس عالیہ نیلم کو سپریم جوڈیشل کمیشن نے لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس تو مقرر کر دیا ہے تاہم بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ مارچ 1996 کے الجہاد کیس میں یہ طے ہوا تھا کہ سب سے سینیئر جج ہی ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر ہوگا اور اس معاملے میں سینیارٹی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔1996 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ لاہور ہائیکورٹ میں کسی جج کا تقرر سینیارٹی کے اصول کے ہٹ کر کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ 1996 میں اسی فیصلے کی بنیاد پر اُس وقت کے سب سے سینیئر جج جسٹس خلیل الرحمان خان، جنھیں وفاقی شرعی عدالت بھیج دیا گیا تھا، کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مقرر کیا گیا۔ مارچ 2024 کے دوران جسٹس ملک شہزاد احمد خان لاہور ہائیکورٹ کے وہ آخری چیف جسٹس تھے جن کا تقرر سینیارٹی کی بنیاد پر ہوا تھا۔جوڈیشل کمیشن نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کا سپریم کورٹ میں تقرر کرتے وقت چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے تقرر پر غور نہیں کیا اور اسی وجہ سے جسٹس شجاعت علی خان کو قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔ اس سے پہلے 1996 میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس ارشاد حسن خان کو ججز کیس سے پہلے لاہور ہائیکورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیا گیا تھا۔

قانونی ماہرین کے مطابق 1996 سے اب تک سینیارٹی کے اصول کے تحت مختلف چیف جسٹس صاحبان کو اُن کے عہدے پر برقرار رکھا گیا ہے اور ان سے سینیارٹی میں کم ججز کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا جاتا رہا ہے۔لاہور ہائیکورٹ کی نئی چیف جسٹس عالیہ نیلم اس وقت سینیارٹی کے اعتبار سے تیسرے نمبر ہیں۔ تاہم ان کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بننے کے بعد ہائیکورٹ کی سینیارٹی لسٹ تبدیل ہو گئی ہے۔ تاہم قانونی ماہرین کے مطابق الجہاد ٹرسٹ کے وہاب الخیری ایڈووکیٹ کی درخواست پر اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں فل بنچ نے ججز کے تقرر اور ان کی سینیارٹی کے اصول کو معین کیا تھا۔ تاہم ججز کیس یعنی الجاد ٹرسٹ کیس کے عدالتی فیصلے سے پہلے سینیارٹی کے برعکس بھی چیف جسٹس صاحبان کا تقرر ہوتا رہا اور سینیارٹی نظر انداز ہونے کے باوجود ججز اپنے فرائض ادا کرتے رہے ہیںلیکن اب صورتحال مختلف ہے اور آنے والے دن اس بات کا تعین کریں گے کہ سینیارٹی متاثر ہونے پر سینیئر ججز کیا فیصلہ کرتے ہیں۔

Back to top button