سابق صدر علوی ٹرمپ سے عمران کی رہائی کی امید لیے امریکہ پہنچ گئے

صدر ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے باوجود یوتھیوں کی امیدوں کے برعکس انکی جانب سے عمران خان کے حوالے سے مکمل خاموشی اپنانے کے بعد سابق پاکستانی صدر عارف علوی نے امریکہ پہنچ کر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے اعلی سطحی امریکی شخصیات سے رابطوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ تاہم ابھی تک انہیں کسی بھی اہم امریکی شخصیت سے ملاقات کا وقت نہیں مل پایا۔

بتایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر عارف علوی اپنے موجودہ دورہ امریکا کے دوران وہاں مقیم تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ساتھ مل کر عمران خان کی رہائی کی مہم فعال طور پر آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ امریکہ میں صدارتی الیکشن سے پہلے تحریک انصاف کی جانب سے یہ دعوے کیے جا رہے تھے کہ ٹرمپ اقتدار میں آتے ہی عمران خان کی رہائی کا ایجنڈا لے کر حکومت پاکستان سے بات کریں گے، لیکن ایسا نہیں ہو پایا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد صدر ٹرمپ بجائے کہ عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے، الٹا انہوں نے شہباز شریف حکومت کی تعریفوں کے پل باندھ دیے اور ایک مطلوب دہشت گرد کی گرفتاری پر حکومت پاکستان کا خصوصی شکریہ ادا کر ڈالا۔ اس کے بعد امریکی دفتر خارجہ اور وائٹ ہاؤس کے ترجمانوں نے بھی اپنی میڈیا بریفنگز میں عمران خان کی رہائی کے حوالے سے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ دونوں ترجمانوں کا موقف تھا کہ امریکہ پاکستان کی اندرونی سیاست میں مداخلت پر یقین نہیں رکھتا۔

ایسے میں اب سابق صدر علوی امریکہ پہنچ چکے ہیں اور عمران خان کی رہائی کی مہم تیز کرنے کا دعوی کر رہے ہیں۔ سینیئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ عمران خان کی رہائی کی اس نام نہاد مہم  چلانے والوں میں پارٹی کے چند ایسے رہنما اور عہدیدار سب سے آگے ہیں جو امریکہ میں بیٹھ کر "ریاست مخالف” اور "فوج مخالف” بیانیہ آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا پر حکومت اور فوج مخالف مہم چلا کر وہ فیصلہ سازوں کو عمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ میں لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ بیرونِ ملک ان کی سرگرمیوں کا مقصد پارٹی قیادت کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنا ہے، تاہم حکام کا کہنا ہے کہ ان سرگرمیوں میں قومی اداروں، خصوصاً فوج اور اس کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ریاستی مفادات کو نقصان پہنچایا جا رہا یے۔

یاد رہے کہ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے فارغ ہونے کے بعد عمران خان نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان کی بے دخلی کی سازش میں امریکہ کا بنیادی کردار تھا اور یہ سازش فوج کے ساتھ مل کر تیار کی گئی۔ تاہم جیل جانے کے بعد سے عمران اور ان کے حامیوں کی تمام تر امیدوں کا مرکز صدر ٹرمپ بنے ہوئے ہیں جن پر یوتھیوں کی جانب سے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ خان کی رہائی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ تاہم نہ تو سابق صدر بائیڈن اور نہ ہی نئے صدر ٹرمپ نے پی ٹی آئی کی توقعات کے مطابق پاکستانی فیصلہ سازوں پر کوئی دباؤ ڈالا ہے۔

ڈاکٹر عارف علوی کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ اپنے امریکی دورے کے دوران وہ کسی اہم امریکی عہدے دار سے تو ملاقات نہیں کر پائے لیکن انہوں نے چند اراکین کانگریس سے ضرور ملاقات کی ہے جو عمران خان کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ صدر عارف علوی نے لاس ویگاس کی سیر کے دوران وہاں کی میئر شیلی برکلی سے بھی ملاقات کی اور عمران خان کی رہائی کا مقدمہ پیش کیا۔ لیکن سابق صدر علوی بھول گئے کہ لاس ویگاس کی میئر کا پاکستانی سیاست سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ صدر علوی ایک روز فاکس نیوز پر بھی نمودار ہوئے جہاں انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان میں یو ایس ایڈ کے فنڈز کا استعمال انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کے لیے کیا گیا۔ انہوں نے کہا میں امریکا میں عمران خان کو آزادی دلوانے کے مشن پر آیا ہوں۔ تاہم اس بیان کے بعد صدر علوی سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی زد میں ہے اور ناقدین کی جانب سے سوال کیا جا رہا ہے کہ امریکی سائفر کا الزام لگانے اور "ہم کوئی غلام ہیں” کا نعرہ لگانے والے عمران خان اب کس منہ کیساتھ امریکہ کیساتھ اپنی رہائی کی امیدیں لگا رہے ہیں؟

امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے کا افسر عمران کی رہائی کیلئے متحرک3

بتایا جاتا ہے کہ صدر عارف علوی کا دورہ امریکہ پی ٹی آئی امریکہ چیپٹر کے تعاون سے ممکن ہوا، اور ان کی امریکی کانگرس کے اراکین سے ملاقاتیں کروانے میں شہباز گل اور قاسم سوری نے کردار ادا کیا۔ یاد رہے کہ ان دونوں پر حکومت پاکستان کی جانب سے ریاستی اداروں خصوصاً فوج کے خلاف مہم چلانے اور سوشل میڈیا پر گمراہ کن بیانیہ پھیلانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

Back to top button