سندھو دیش ریولیشنری آرمی کیا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے؟

https://www.youtube.com/watch?v=87bvcXFEaxw&t=5s
حال ہی میں کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں میں تخریبی کارروائیاں کرنے والی سندھو دیش ریولیشنری آرمی دراصل قوم پرست سندھی سیاست دان جی ایم سید کی پیروکار ہے اور دیہی سندھ کو الگ ملک بنانے کی خواہاں ہے۔ یہ سندھی عسکریت پسند گروہ ریاست پاکستان کی مبینہ ناانصافی، اپنی سیاسی قیادت کی جبری جلاوطنی، کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل کے واقعات اور جبری گمشدگیوں کو بنیاد بنا کر سندھو دیش کے لئے مسلح جدوجہد کرنے میں مصروف ہے۔ حال ہی میں کراچی میں رینجرز پر ہونے والے کریکر بم حملوں کی ذمہ داری بھی اسی گروپ نے قبول کی ہے اور یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ایسا کر کے انہوں نے اپنے ایک سندھی قوم پرست ساتھی نیاز لاشاری کے قتل کا بدلا لیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق لندن میں مقیم ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی حمایت میسر آنے کے بعد اس تنظیم کی عسکری کارروائیوں میں تیزی آگئی ہے جس کے نتیجے میں اس دھڑے کو حکومت پاکستان کی جانب سے مئی 2020 میں کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔ سندھ میں علیحدگی کی تحریک تو 1970 سے جاری ہے لیکن اس میں مزاحمتی رنگ 2000 میں آیا جبکہ جئے سندھ متحدہ محاذ کا دوسرا جنم ہوا ۔نومبر 2000 میں شفیع محمد برفت کی قیادت میں دو درجن افراد نے جیئے سندھ متحدہ محاذ کی بنیاد رکھی۔اس تنظیم کے آئین میں وہ تمام نکات شامل ہیں جو جیئے سندھ تحریک کے بانی جی ایم سید نے رکھے تھے لیکن ایک نکتے کا اضافہ کیا گیا وہ تھا مزاحمت یا عسکریت پسندی۔
ابتدائی طور پر دادو کے علاقے میں بجلی کی ہائی ٹرانسمیشن لائن، حیدرآباد، کوٹڑی، خیرپور، نوشہرو فیروز اور جامشورو سمیت مختلف علاقوں میں ریلوے ٹریک پر بم دھماکے کیے گئے اور ان واقعات کی ذمہ داری سندھ لبریشن آرمی نامی غیر معروف تنظیم قبول کرنے لگی۔ یہ وہ وقت تھا جب بلوچستان میں مزاحمتی تحریک زور پکڑ رہی تھی۔
چین پاکستان اقتصادی راہدری کا مخالف اور سندھ کے معدنی وسائل پر مقامی حقوق کا حامی ہونے کا دعویٰ کرنے والی یہ عسکریت پسند تنظیم سندھو دیش ریولیشنری آرمی ماضی قریب میں گلشن حدید کے علاقے میں چینی انجنیئروں کی گاڑی، سکھر میں سی پیک اہلکاروں سمیت کراچی میں ایک ایس ایچ او اور رینجرز پر حملے کی ذمہ داری قبول کرچکی ہے۔سندھو دیش ریولیشنری آرمی کو اصغر شاہ گروپ بھی کہا جاتا ہے، جس کا سربراہ شاہ عنایت کے نام سے پہچان رکھتا ہے۔ اصغر شاہ 2005 میں گرفتار ہوئے اور پانچ سال کے بعد ان کی رہائی عمل میں آئی جس کے بعد انھوں نے اپنا گروپ بنانے کا فیصلہ کیا۔کالعدم سندھو دیش ریولیشنری آرمی کا کہنا ہے کہ جئے سندھ متحدہ محاذ کے سربراہ شفیع برفت مسلح جدوجہد سے دستبردار ہوگئے تھے، جبکہ اس عرصے میں ان کے 40 ساتھی ہلاک کیے گئے اور اس بات پر اختلافات سامنے آئے۔ واضح رہے کہ شفیع برفت اور ان کے ساتھی اس وقت جرمنی میں سیاسی پناہ لیے ہوئے ہیں۔
سندھ کے قوم پرست عسکریت پسند گروپ کا قیام 2010 میں عمل میں لایا گیا، کالعدم جئے سندھ متحدہ محاذ میں اندرونی اختلافات اس گروپ کے قیام کی وجہ بنی تھی۔ اس سے قبل تحقیقاتی ادارے کالعدم سندھ لبریشن آرمی کا تعلق جیئے سندھ متحدہ محاذ سے جوڑتے آئے ہیں۔2003 سے پاکستان کے ریاستی ادارے سرگرم ہوئے اور سندھ سے گمشدگیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ٹنڈو محمد خان، میھڑ، خیرپور ناتھن شاھ، حیدرآباد، خیرپور، شہدادکوٹ، رتودیرو سمیت کئی شہروں سے درجنوں قومپرست کارکن لاپتہ ہوگئے، جن میں سے کئی نے رہا ہونے کے بعد قومی دہارے میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ یاد رہے کہ تین مارچ 1943 کو سندھ اسمبلی میں سندھ کے سینیئر سیاستدان جی ایم سید نے پاکستان کے قیام کے لیے قرارداد پیش کی تھی۔ سندھ یہ قرارداد پیش کرنے والا پہلا صوبہ تھا۔ مگر اسی جی ایم سید نے 1973 میں سندھو دیش یعنی سندھ کے ایک آزاد حیثیت میں قیام کا تصور پیش کیا تھا، یہ وہ ہی وقت ہے جب 1973 کا آئین پیش کیا گیا تھا۔آئین سازی سے پہلے جی ایم سید نے ذوالفقار علی بھٹو کو صوبائی خود مختاری یقینی بنانے کے لیے اور مذہبی شدت پسندی اور آمریت کا راستہ روکنے کے لیے تجاویز پیش کی تھیں جنھیں نظر انداز کر دیا گیا۔خادم سومرو کے مطابق آئین منظور ہونے کے بعد جی ایم سید بدظن ہوگئے۔ ان کا خیال تھا کہ اس آئین کے تحت سندھ کو کبھی حقوق نہیں ملیں گے اور آخرکار حیدرآباد میں طلبہ کے ایک پروگرام میں انھوں نے پہلی بار سندھو دیش کا تصور پیش کیا۔ ضیاء کے مارشل لاء دور کے دوران جی ایم سید فوجی ڈکٹیٹر کی خصوصی محبت اور شفقت کی وجہ سی ان کے بہت قریب آ گئے تھے چونکہ دونوں ہی پیپلز پارٹی کے مخالف تھے۔
کالعدم جیے سندھ قومی محاذ کے کالعدم گروپ آریسر گروپ کے چیئرمین اسلم خیرپوری کھلے عام کہتے ہیں کہ وہ جی ایم سید کے نظریے کے پیروکار ہیں جس کے تحت ان کی منزل سندھو دیش ہے۔ لیکن ان کا دعویٰ تھا کہ ان کی جماعت پرامن جدوجہد کر رہی ہے کیونکہ جی ایم سید نے کبھی ہتھیار نہیں اٹھایا۔ انھوں نے 32 سال جیل اور نظر بندی میں گزار دیے لیکن تشدد کی حمایت نہیں کی۔ اسلم خیر پوری کا دعویٰ ہے کہ 2017 سے ہماری تنظیم کے خلاف ایک غیر اعلانیہ آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ ہمارے کئی کارکن جبری لاپتہ ہوئے اور اس وقت بھی ان کی تعداد 17 کے قریب ہے۔ اس طرح ہماری جدوجہد میں رکاوٹیں ڈالی گئیں اور اب انھیں کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔انھوں نے الزام لگایا تھا کہ اس فیصلے کے ذریعے انھیں اپنے حقیقی مطالبات اور شکایات عالمی ضمیر تک پہنچانے سے روکا جا رہا تھا، اور انھوں نے اسے ‘بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی’ قرار دیا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق لندن میں مقیم ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی حمایت میسر آنے کے بعد اس تنظیم کی عسکری کارروائیوں میں تیزی آگئی ہے جس کے نتیجے میں اس دھڑے کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر الطاف حسین گروپ اور سندھو دیش والے اب الطاف حسین کو بابائے سندھو دیش قرار دے رہے ہیں۔