جسٹس منصور کا 26 ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ کےلیے چیف جسٹس کو ایک اور خط
سپریم کورٹ کےسینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے 26 ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ بینچ کےلیے چیف جسٹس کو ایک اور خط لکھ دیا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو لکھےگئے خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کا فیصلہ ہونے تک جوڈیشل کمیشن کا اجلاس مؤخر کیاجائے۔26ویں ترمیم فل کورٹ کو 184 تین کامقدمہ سننے سے نہیں روکتی۔
خط کے متن کے مطابق چیف جسٹس آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کےلیے فل کورٹ تشکیل دیں اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو درخواستیں سماعت کےلیے لگانےکا حکم دیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نےلکھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کےتحت جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو کی گئی تھی، ترمیم کے خلاف دو درجن سے زائد درخواستیں زیر التوا ہیں، آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں منظور بھی ہوسکتی ہیں اور مسترد بھی ہوسکتی ہیں۔
خط کےمطابق آئینی ترمیم کے خلاف درخواست منظور ہوتی ہیں تو جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کی وقعت ختم ہو جائے گی، ایسی صورت حال ادارے اور ممبران کےلیے شرمندگی کا باعث بنے گی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ جسٹس منیب اور میں نے بطور اکثریتی ارکان کمیٹی کیس فل کورٹ میں لگانےکا فیصلہ کیا تھا،اس فیصلے کے باوجود کیس فل کورٹ میں مقرر نہیں کیاگیا۔ابھی تک چیف جسٹس یا رجسٹرار کی جانب سے اس پر جواب بھی نہیں آیا۔
واضح رہےکہ گزشتہ مہینے بھی سپریم کورٹ کے 2 سینئر ترین ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے 26 ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ بینچ کےلیے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھ دیا تھا۔
خط کے متن کےمطابق دونوں سینیئر ججز نے 31 اکتوبر کو چیف جسٹس سے کمیٹی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا، چیف جسٹس کے اجلاس نہ بلانے پر سیکشن 2 کےتحت ہم ججز نے خود اجلاس بلایا اور 31 اکتوبر کی کمیٹی میٹنگ میں 26 ویں ترمیم کا کیس فل کورٹ میں لگانے کافیصلہ کیا۔
خط کےمطابق 2 ججز نے اجلاس میں فیصلہ کیا 26 ویں ترمیم کےخلاف کیس 4 نومبر کو فل کورٹ سنے گی مگر کمیٹی فیصلے کے باوجود کوئی کاز لسٹ جاری نہ ہوئی، فیصلے سے متعلق رجسڑارآفس کو آگاہ کردیا گیا، جس پرعمل درآمد لازمی ہے، انتہائی افسوس کےساتھ کہنا پڑ رہا ہے،فل کورٹ سماعت کی کازلسٹ جاری نہیں ہوئی،کمیٹی اجلاس کا فیصلہ اب بھی برقرار ہے،جس پرعمل درآمد لازمی ہے۔
واضح رہےکہ سابق صدر سپریم کورٹ بار سمیت 6 وکلا نے 26 ویں آئینی ترمیم کےخلاف درخواست سپریم کورٹ میں دائر کر رکھی ہے ۔ استدعا کی گئی ہے کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کو آئین کے بنیادی حقوق اور آئینی ڈھانچے کے منافی قرار دیا جائے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیاکہ آئینی ترمیم کےلیے ارکان سے زبردستی ووٹ نہیں لیا جا سکتا۔ پارلیمنٹ نامکمل ہے۔اس کی آئینی حیثیت پر قانونی سوالات موجود ہیں۔
غیر ملکی سفرا کو مکمل سیکیورٹی کا یقین دلاتے ہیں ، دفتر خارجہ
درخواست کے متن کےمطابق عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی تقسیم آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے ۔پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے چیف جسٹس کی تعیناتی عدلیہ میں مداخلت کے مترادف ہے۔ آئینی بینچز کا قیام بھی سپریم کورٹ کے متوازی عدالتی نظام کا قیام ہے۔استدعا کی گئی ہے کہ ججز کی تقرری کےلیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلانے سےروکا جائے۔ عابد زبیری سمیت چھ وکلا نے درخواست میں وفاق اور صوبوں کو فریق بنایاہے۔