لمز میں فوجی ترجمان کے خطاب کے دوران فوج مخالف نعرے کیوں لگے؟

اس وقت سوشل میڈیا پر لاہور انسٹی ٹیوٹ آف مینیجمنٹ سائنسز یعنی لمز کے طلبہ کی جانب سے جمعہ کے روز یونیورسٹی کیمپس میں عمران خان کے حق اور فوج کے خلاف ہونے والی نعرے بازی زیر بحث ہے اور وہ بھی ایک ایسے موقع پر جب فوجی ترجمان یعنی ‘آئی ایس پی آر’ کے سربراہ وہاں خطاب کر رہے تھے۔

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری فوج کے پروگرام ‘انٹریکٹ وِد اسٹوڈنٹس’ کے تحت لاہور میں لمز یونیورسٹی گئے تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق لمز میں طلبہ و طالبات کے ایک گروپ نے فوجی ترجمان کے ساتھ ہونے والی خصوصی نشست کا بائیکاٹ کیا اور اُس ہال کے باہر نعرے بازی شروع کر دی جہاں اِس نشست کا اہتمام کیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر موجود بعض ویڈیوز میں طلبہ کو نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جس میں وہ پاکستان کے مبینہ خراب حالات کا ذمے دار فوج کو قرار دے رہے تھے۔

ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نعرے لگوانے والے کا منہ اپنے ساتھیوں کی طرف ہے جب کہ اُس کے نعروں کا جواب دینے والوں کے چہرے نظر نہیں آ رہے۔ وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں لمز کے طلبہ سے بات کی تو اُنہوں نے اس واقعہ کے بارے میں بات کرنے سے انکار کیا۔ لمز کے ایک اُستاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو لمز بزنس اسکول کی انتظامیہ نے مدعو کیا تھا اور جس مقام پر طلبہ نے نعرے بازی کی وہ شعبہ سوشل سائنسز کے باہر ہال ہے۔ تاہم سیکیورٹی ذرائع کی جانب سےکہا گیا ہے کہ لیفٹننٹ جنرل احمد شریف کی لمز آمد پر اساتذہ، طلبہ اور انتظامیہ نے ان کا پرتپاک استقبال کیااور خصوصی نشست کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے طلبہ کے مختلف سوالات کے مدلل اور مؤثر جوابات دیے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے طلبہ کے ساتھ پاکستان کی اندرونی و بیرونی سیکیورٹی صورتِ حال سمیت مختلف موضوعات پر بھی مفصل گفتگو کی۔

یہ پہلا موقع نہیں جب کسی اعلٰی فوجی افسر نے لمز میں طلبہ سے خطاب کیا ہو ۔ اِس سے قبل فوج کے سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بطور آرمی چیف لمز کے طلبہ سے خطاب کیا تھا تو انہیں طلبہ کے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اِسی طرح ماضی میں سابق نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کو بھی لمز میں طلبہ کے ساتھ خصوصی نشست کے موقع پر سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ معاشرے میں اختلافِ رائے کے لیے شائستگی کا عنصر ختم ہوتا جا رہا ہے۔نوجوان نسل اور خاص طور پر طلبہ کی ایسی ذہن سازی ہوئی ہے کہ وہ کسی مباحثے کا حصہ بننے کے بجائے فتح یا شکست تصور کرنے لگتے ہیں۔

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز سمجھتے ہیں کہ یہ ایک خاص قسم کی ذہن سازی ہے جو کہ پاکستان کے نوجوانوں کی گئی ہے تا کہ وہ فوج اور فوجی حکام پر تنقید کر سکیں۔ اُنہوں نے کہا کہ فوجی افسران ایک طے شدہ پروگرام کے تحت مختلف تعلیمی اداروں میں جا کر طلبہ سے بات کرتے ہیں تا کہ اُن کے ذہنوں میں موجود شکوک وشبہات کو بات چیت کے ذریعے ختم کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے سیشنز کا مقصد ہوتا ہے کہ طلبہ فوجی قیادت سے دلیل و منطق کے ساتھ سوالات کریں، مباحثے کا حصہ بنیں لیکن بدتمیزی نہ کریں۔

تجزیہ کار افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں نوجوان نسل کی جو ذہن سازی آج ہوئی ہے اُس کی بہت زیادہ ذمہ دار ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ہیں۔ اُن کا کام تھا کہ وہ اِس ذہن سازی کے راستے میں رکارٹ ڈالنے کے لیے مثبت طریقہ اپناتے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی نوجوان نسل کو ملک کے مسائل سے بخوبی آگہی ہونی چاہیے اور یہ اُن کا آئینی حق بھی ہے لیکن سوالات سے قبل انہیں اُن سوالات کی وجوہات کا علم بھی ہونا چاہیے۔

افتخار احمد کے مطابق گفت و شنید مسائل کے حل کا ایک راستہ ہوتا ہے جس میں کسی کی شکست یا کامیابی نہیں ہوتی۔ تاہم افواجِ پاکستان کا یہ کام نہیں کہ وہ تعلیمی اداروں میں جائیں اور یہ کام کریں۔ واضح رہے کہ پاکستان فوج پر سیاست میں مداخلت کا الزام لگتا رہا ہے جب کہ فوجی ترجمان بارہا کہتے رہے ہیں کہ ان کا کوئی فیورٹ نہیں اور وہ سیاست سے دور ہیں۔ افتخار احمد کہتے ہیں فوج نظام چلانے کے الزامات پر پسِ پردہ رہ کر بات کر سکتی ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ طلبہ سوال کے متبادل سوال کو بھی دیکھیں۔ اُن میں متبادل سوالات سننے کی برداشت نہیں اور وہ سوالات کے جواب میں ایک ہی جواب سننا چاہیں تو ایسی گفتگو سے اچھے نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔

کیا بسنت پر پابندی لگانا ہی حکومت کے پاس واحد حل تھا؟

سینئر صحافی کے مطابق اُنہوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو دیکھا ہے جس میں ایک طالبہ اُن سے سوال کر رہی تھیں لیکن وہ تمام سوالات ایک منفی ذہن کی عکاسی کر رہے تھے اور وہ طالبہ کچھ بھی سیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ ان کے بقول فوج کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹیں تاکہ ایک ایسا ماحول جنم لے جس میں طلبہ کے سوالات کا جواب فوجی ترجمان کے بجائے سیاسی جماعتوں کے قائدین دیں اور اس معاملے پر کھل کر گفتگو ہونی چاہیے۔

Back to top button