یکم اپریل سے غیر قانونی افغانیوں کی گرفتاری اور ملک بدری ہو گی

پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں کے لیے حکومت کی جانب سے اعلان کردہ 31 مارچ کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد یکم اپریل سے ایسے لوگوں کی گرفتاری کا سلسلہ شروع ہو جائے گا جس کے بعد انہیں فوری طور پر بے دخل کر کے افغانستان واپس بھجوا دیا جائے گا۔ وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی گرفتاری کے بعد ملک بدری کے لیے تمام تر انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ اس سال کے اوائل میں پاکستانی حکومت نے افغان سٹیزن شپ کارڈ رکھنے والوں کو 31 مارچ تک ملک چھوڑنے یا ملک بدری کا سامنا کرنے کا حکم دیا تھا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی جانب سے اس فیصلے پر نظر ثانی کی درخواستوں کے باوجود شہباز شریف حکومت نے ان کی وطن واپسی کے فیصلے کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 31 مارچ کی ڈیڈ لائن کے خاتمے کے بعد افغان سٹیزن شپ کارڈ ہولڈرز کی افغانستان واپسی کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے وزیر داخلہ محسن نقوی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں بتایا گیا کہ غیر قانونی افغانیوں کو ملک بدر کرنے کے لیے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ حکام کا کہنا تھا کہ ملک بدری سے قبل افغان شہریوں کو حراست میں لینے کے بعد عبوری طور پر ہولڈنگ سینٹرز میں منتقل کر دیا جائے گا جہاں خوراک اور صحت کی سہولتوں کا انتظام کیا گیا ہے۔ اسکے بعد انہیں زمینی راستوں کے ذریعے افغانستان منتقل کر دیا جائے گا۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری وطن واپسی کے عمل کے دوران کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے صوبوں کا دورہ کریں گے۔محسن نقوی نے حکام کو ہدایت کی کہ وطن واپسی کے عمل کے دوران غیر ملکی شہریوں کے ساتھ احترام سے پیش آئیں۔ اجلاس کے شرکا کو بتایا گیا کہ افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے حوالے سے گھر گھر جا کر آگاہی مہم جاری ہے، اور افغان سٹیزن شپ کارڈ یا اے سی سی ہولڈرز کی میپنگ بھی مکمل کر لی گئی ہے۔ اے سی سی نادرا کی جانب سے رجسٹرڈ افغان شہریوں کو جاری کردہ شناختی دستاویز ہے۔

اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے مطابق اے سی سی پاکستان میں قیام کے دوران افغانوں کو عارضی قانونی حیثیت دیتا ہے، تاہم یہ فیصلہ وفاقی حکومت کرتی ہے کہ اے سی سی کتنی مدت تک برقرار رہے گا۔ وزارت داخلہ کی ایک سینیئر افسر نے بتایا کہ ڈیڈ لائن کے خاتمے کے بعد ملک بھر میں اے سی سی ہولڈرز کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ غیر قانونی افغان شہریوں کو اپنی جائیدادیں کرائے پر دینے والے پاکستانی شہریوں کو بھی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر قانونی افغانوں کا سراغ لگانے کے لیے سرچ آپریشن کیے جائیں گے، اور ان کا بائیو میٹرک ریکارڈ سرکاری ریکارڈ میں رکھا جائے گا تاکہ مستقبل میں ان کے ملک میں داخلے کو روکا جا سکے۔ اسکے علاوہ افغان شہریوں کی جانب سے جعلی طور پر حاصل کی گئی شناختی اور سفری دستاویزات منسوخ کردی جائیں گی، انہیں قید اور جرمانے کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔

کیا ریاستی کنٹرول سے پاکستان ایک شکاری ریاست بن چکا ہے؟

تاہم دوسری جانب انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی جانب سے غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغان شہریوں کی ملک بدری کے منصوبے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس ڈیڈ لائن نے لاکھوں افغانوں کو تیزی سے غیر یقینی اور کمزور حالت میں چھوڑ دیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکام کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہزاروں لوگوں کو ’ہراساں کیا جا رہا ہے، انہیں حراست میں لیا جا رہا ہے اور ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ایمنسٹی نے مذید کہا کہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی وطن واپسی کے منصوبے کے حصے کے طور پر پناہ گزینوں سمیت افغان شہریوں کو جبری طور پر ملک بدر کرنے کے پاکستانی فیصلے سے ان کی حالت مزید ابتر ہو گی۔ انسانی حقوق کے ادارے نے 31 مارچ کی ڈیڈ لائن کو ’غیر متزلزل اور ظالمانہ‘ قرار دیا۔

تاہم پاکستانی دفتر خارجہ نے افغانوں کے ساتھ بدسلوکی کے دعووں کو ’بیہودہ‘ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو بے دخل کرنے کا قانون موجود ہے اور اسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔

Back to top button