ایک بہت پرانی یاد!

تحریر:عطا الحق قاسمی۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ جنگ

سینٹ لوئیس سے گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ایک جنت نظیر قصبے ایفنگ ہیم (EFFINGHAM) میں ہمارا قیام دراز قد اور خوبرو ڈاکٹر نریندر اروڑا کے وِلا میں تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے اہل خانہ کہیں گئے ہوئے تھے چنانچہ انہوں نے اپنے گھر کا ایک پورا فلور انعام الحق جاوید، عزیر احمد اور راقم الحروف کے سپرد کر دیا تھا جبکہ عملی طور پر ہمارا ”قبضہ“ پورے گھر پر تھا۔ شام کو ڈاکٹر اروڑا اپنے کلینک سے واپس لوٹے تو انہوں نے ایک نظر میرے اترے ہوئے چہرے پر ڈالی اور کہا ”آپ مجھے کچھ پریشان سے نظر آ رہے ہیں، کوئی مسئلہ تو نہیں ؟“ میں نے اپنی پریشانی چھپاتے ہوئے عرض کی ”مسئلہ کیسا؟ آپ میرا کتنا خیال کر رہے ہیں اتنا خیال تو کبھی ہمارے گھر والوں نے ہمارا نہیں کیا!“ ڈاکٹر صاحب ہنسے اور پھر سنجیدگی سے بولے ”آپ مجھ سے کچھ چھپا رہے ہیں“ اس کے بعد جیسے اچانک ان کے ذہن میں کوئی بات آئی ہو، کہنے لگے ”آپ سگریٹ تو نہیں پیتے؟“ میں نے جھجکتے ہوئے کہاجی ہاں، اس عادتِ بد کا بہت بری طرح شکار ہوں ڈاکٹر صاحب نے پوچھا ”سگریٹ کہاں ہیں؟“

میں نے جواب دیا ”میری جیب میں ہیں؟“

بولے ”تو پھر نکالیں اور پئیں، سوچ کیا رہے ہیں؟“ اگرچہ ڈاکٹر اروڑا نے یہ الفاظ واضح طور پر کہے تھے مگر میرے کانوں کو یقین نہیں آ رہا تھا ۔ آپ میں سے شاید بہت سے دوستوں کو علم نہ ہو کہ امریکیوں کو تو چھوڑیں امریکہ میں مقیم پاکستانی اور بھارتی بھی جنہیں اپنے ملک میں پیدا ہوتے ہی ”گڑھتی “ ہی دھوئیں اور گرد و غبار کی دی گئی ہوتی ہے وہ بھی امریکیوں کی طرح اپنے گھروں میں کسی کو سگریٹ پینے کی اجازت نہیں دیتے، یہاں تو معاملہ اس سے بھی زیادہ ”سنگین“ تھا یعنی ایک تو ”امریکی“ کا گھر، اوپر سے وہ ڈاکٹر اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سکھ مذہب کا پیروکار! واضح رہے کہ سکھ مذہب میں سگریٹ کو اتنا ہی نجس سمجھا جاتا ہے جتنا نجس ہم مسلمان سور کو جانتے ہیں چنانچہ میں نے ان ”نازک حالات“ میں ڈاکٹر اروڑا کا شکریہ ادا کیا اور انہیں ٹالنے کیلئے کہا ”اس وقت مجھے طلب نہیں ہے، بعد میں پی لوں گا!“ ڈاکٹر اروڑا بولے ”میں جانتا ہوں، آپ میرے مذہب کا پاس کرتے ہوئے یہ بات کہہ رہے ہیں لیکن آپ ذہن سے یہ سب باتیں جھٹک کر پورے اطمینان سے سگریٹ پئیں اور ریلیکس ہو جائیں۔ میں اپنے مہمان کو خوش دیکھوں گا تو خوش ہوں گا“۔ میں نے ایک بار پھر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا ”آپ بے فکر رہیں، میں تھوڑی دیر بعد ضرور پیوں گا“ میں نے دل میں انکی مہمان نوازی کو سراہا لیکن میں بھی آداب مہمانی بھولنا نہیں چاہتا تھا۔ اگرچہ خون میں نکوٹین کی کمی ہو جانے کی وجہ سے میں واقعی بہت بے چین تھا، میں نے دو چار مرتبہ گھر سے باہر جا کر سگریٹ پینے کی کوشش بھی کی تھی مگر سخت سردی کی وجہ سے ایک آدھ کش لگا کر جلدی سے واپس گھر میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتا تھا لیکن اسکے باوجود میرا دل ڈاکٹر اروڑا کی پیشکش پر ہاں کہنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے میری یہ ذہنی

عالمی بینک نے پاکستان کےلیے ایک ارب ڈالرز فنڈنگ کی منظوری دے دی

 

کشمکش دور کرنے کیلئے ایک بار پھر مجھے یقین دلایا کہ میرے سگریٹ پینے سے ان کے مذہب کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور اصرار کیا کہ میں سگریٹ ابھی پیوں۔ چنانچہ جب میں نے محسوس کیا کہ اب مزید لیت و لعل کی کوئی گنجائش نہیں رہی تو میں نے جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکالی، اس میں سے ایک سگریٹ نکال کر ہونٹوں کو لگایا اور لائٹر کا شعلہ اس کے قریب لے گیا۔ پھر میں نے ایک لمبا کش لیا اور مارے لذت کے میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اس وقت میرے چہرے پر جو شانتی تھی اگر کوئی اس کی تصویر لیتا تو یہ امن عالم کے مونو گرام کے طور پر استعمال کی جا سکتی تھی۔ڈاکٹر اروڑا میرے ڈاکٹر دوست نعیم کوہلی کے عزیز ترین دوستوں میں سے ہیں۔ ڈاکٹر نعیم کوہلی سینٹ لوئیس میں ”کیمکانا“ کے کنونشن کے اختتام پر ہمیں اپنے قصبے ایفنگ ہیم لے آئے تھے تاکہ کچھ دن ان کے ساتھ گزار سکوں۔ وہ ان دنوں کئی ایکڑوں میں ایک محل نما مکان تعمیر کر رہے تھے جس میں انہوں نے اگرچہ رہائش اختیار کر لی تھی تاہم بہت سا کام ابھی باقی تھا چنانچہ انہوں نے اپنے گھر سے واکنگ ڈسٹینس پر واقع ڈاکٹر اروڑا کے ہاں میرے قیام کا انتظام کیا تھا اور یوں ہمارا ناشتہ ، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا ڈاکٹر کوہلی ہی کے ہاں ہوتا تھا۔ نعیم کوہلی بہت راسخ العقیدہ مسلمان ہیں اور یہی معاملہ ڈاکٹر اروڑا کا بھی ہے۔ وہ مونے سکھ نہیں بلکہ باقاعدہ اپنے مذہب کی شریعت کے پابند ہیں، یعنی داڑھی، پگڑی اور کڑے کا اہتمام موجود ہے چنانچہ سگریٹ کے حوالے سے میری ہچکچاہٹ اس وجہ سے ہی تھی۔ بہرحال وہ مجھے سگریٹ پر ”لگا“ کر دوبارہ اپنے کلینک چلے گئے اور رات کو واپس لوٹے تو کپڑے تبدیل کر کے ہمارے ساتھ لیونگ روم میں آ کر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر ادھر ادھر کی گپ شپ کے بعد انہوں نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ”قاسمی صاحب، آپ اس وقت میرے سامنے بیٹھے سگریٹ پی رہے ہیں، میں جانتا ہوں یہ آپ کیلئے بھی مضر ہے اور قریب بیٹھے ہوئے لوگ بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں، اگر تو میں ایک دن میں آپ کی یہ عادت چھڑا سکتا تو میں اس کیلئے ضرور کوشش کرتا لیکن بطور ڈاکٹر میں جانتا ہوں اسے چھوڑنے کیلئے ایک لمبا عرصہ چاہئے، آپ نے میرے ہاں صرف تین چار دن رہنا ہے ، میں آپ کو اپنی سہولت کیلئے کیوں عذاب میں ڈالتا؟ میں نے ممنونیت کے لہجے میں کہا ”یہ تو آپ کی فراخدلی ہے“ ہنس کر بولے ”مجھے پتہ ہے میں کتنا فراخ دل ہوں بہرحال میں آپ کو یہ بتا رہا تھا کہ سگریٹ آپ اور آپ کے ”ہمسایوں“ کیلئے نقصان دہ ہونے کے علاوہ میرے مذہب کے بھی منافی ہے لیکن میں اپنا عقیدہ آپ پر نہیں ٹھونسنا چاہتا۔ ہمارے ہندوستان میں اور آپ کے پاکستان میں مذہبی رواداری دن بدن کم ہو رہی ہے، ہم سب ایک دوسرے کو اپنا طور طریقہ اپنانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ دنیا کا کوئی مذہب اسکی اجازت نہیں دیتا ایسا صرف فاشزم میں ہوتا ہے۔ آپ اپنے عقیدے پر قائم رہیں، میں اپنے عقیدے پر قائم ہوں ، آپ جس طرح کی زندگی گزارنا چاہتےہیں گزاریں۔ لیکن دوسروں کو اس کیلئے مجبور نہ کریں۔ اب آپ سگریٹ پی رہے ہیں، مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن میرا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا چنانچہ میں نہیں پی رہا، اسی طرح میرے بھی کسی عمل پر آپ کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے ….ہونا چاہئے؟ میں نے جواب دیا ”نہیں“یہ سن کر ڈاکٹر اروڑا نے ایک بھرپور انگڑائی لی اور کہا ”بس شام ہوتے ہی بدن ٹوٹنے لگتا ہے“ اور پھر اپنے گھر میں بنائے ہوئے بار کی طرف جاتے ہوئے ہنس کر بولے ”امید ہے اب آپ کو بھی میرے اس عمل پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا“۔ اور پھر انہوں نے ایک گلاس میں ارغوانی رنگ کا مشروب انڈیلنا شروع کر دیا۔

Back to top button