پاکستان میں کونسا انصاف اور کون سی عدلیہ؟

پاکستان وہ بد قسمت ملک ہے جہاں عدلیہ کے دو جج بیٹھ کر ملک کا آئین از سر نو تحریر کر دیتے ہیں، یعنی جس آئینی ترمیم کے لئے دو تہائی نمائندے درکار ہوتے ہیں، وہ ’کارنامہ‘ دو جج سر انجام دے دیتے ہیں، اسکے علاوہ اپنی مرضی کے جونئیر جج اوپر لانے کے لئے معزز عدلیہ حکومت کو سرِ عام بلیک میل کرتی ہے، اور اپنی مرضی کا اٹارنی جنرل لانے کے لئے پورے نظام کو مذاق بنا دیا جاتا ہے، لہٰذا سوال یہ ہے کہ جب عدالتیں لاقانونیت کا گڑھ بن جائیں تو کون سا انصاف اور کہاں کی عدلیہ۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سینئر صحافی اور تجزیہ کار حماد غزنوی ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب 2018 میں عمران خان کو اقتدار دلوانے کے بعد ملک میں ہائی برڈ نظام کی بنیادیں مضبوط کی جا رہی تھیں تو سب ادارے یکسو تھے، ہدف یہ تھا کہ عمران مخالف ہر آواز کا گلا گھونٹ دیا جائے، اس مقصد کی خاطر جنرل باجوہ اور جنرل فیض پیچھے بیٹھ کر ڈوریاں ہلا رہے تھے، سٹیج پر جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس جاوید اقبال جیسی معزز پُتلیاں محوِ رقص تھیں، اور اس دوران 2017 سے 2020 تک نیب اور اعلیٰ عدلیہ نے مل کر ایک جیل بھرو تحریک چلائے رکھی جس میں نواز شریف اور ان کے تقریباً سب معتمد ساتھی، بے سروپا الزامات کے تحت پسِ دیوارِ زنداں دھکیل دیئے گئے۔

مہینوں اور برسوں تک ان اصحاب کی ضمانت نہیں ہونے دی گئی۔ حماد غزنوی کہتے ہیں کہ ظلم کی اس داستان میں اسیر سیاست دانوں کا اکثر تذکرہ رہتا ہے، مگر جو غیر سیاسی لوگ اس معرکے میں کام آئے ان کی الم ناک کہانی کم کم سننے میں آتی ہے۔ مثلاً، حال ہی میں نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کے خلاف کیس کا فیصلہ آیا ہے،جو اس دورِ ناروا کی ایک کلاسیک مثال ہے۔فواد صاحب کو گرفتار کرنے کے بعد سوچا گیا کہ کیس کیا بنانا ہے، چودہ ماہ بعد ریفرنس فائل کیا گیا، انہیں انیس ماہ حراست میں رکھا گیا، ضمانت کی اپیل ثاقب نثار کی میز پر مہینوں جوں کی توں پڑی رہی، قریباً پانچ سال کیس چلا، اور آخر انہیں ’با عزت‘ بری کر دیا گیا۔ کیا اس فحاشی کو نظامِ انصاف کہتے ہیں؟ گندے دھندے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں، ایسی لا قانونیت کی مثال تو جنگل بھی نہیں پیش کر پائے گا۔

فواد حسن فواد کا قصور کیا تھا؟ انہیں کہا گیا وعدہ معاف گواہ بنو، بس یہ کہہ دو کہ شریفوں کے کہنے پر یہ یہ غیر قانونی کام ہوا، اور ابھی اسی وقت نیب کے دفتر سے نکلو اور اپنے گھر اپنے بیوی، بچوں اور اپنی ماں کے پاس چلے جائو، ورنہ تمہیں سال ہا سال جیل میں سڑنا پڑے گا، مالی نقصان اٹھانا پڑے گا، اور تمہاری شہرت کو ہمیشہ کے لئے داغ دار کر دیا جائے گا۔ ساری زندگی نیک نامی کمانے والے افسر کے لئے، اپنی ریٹائرمنٹ کے دہانے پر یہ فیصلہ کرنا بہت دشوار ہونا چاہئے تھا، مگر فواد صاحب نے بہت آسانی سے ایک لمحے میں فیصلہ کر لیا۔’میں غلط بیانی نہیں کر سکتا‘، یہ کہہ کر انہوں نے غیر معینہ مدت کے لئے زنداں کی صعوبتوں کا انتخاب کر لیا۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ آپ ذرا خود کو فواد صاحب کی جگہ رکھ کر سوچیں، کیا یہ آسان فیصلہ ہے؟ سو دلیلیں ذہن میں آتی ہیں، اضطراری حالت میں دین بھی کیا کیا روا قرار دے دیتا ہے، بعد میں کہا جا سکتا ہے کہ میں نے بہ حالتِ جبر بیان دیا تھا، مگر ایسے سب وسوسوں کو رد کر کے اپنے ضمیر کے مطابق فوری فیصلہ کرنا اور پھر ثابت قدم ہو جانا، یہ ہما شما کا کام نہیں ہے۔ پاکستان میں نظامِ انصاف کے نام پر جو کھیل کھیلا جاتا ہے اس کے بارے اب اس ملک میں دو آرا نہیں ہیں، پہلے بھی یہ کوئی راز نہیں تھا، مگر اب تو یہ تماشا سرِ عام ہو رہا ہے، مزید ثبوت سامنے آ رہے ہیں ، پہلے تو بات جج ارشد ملک تک تھی، اب باجوہ صاحب بھی اقرار کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کیس اور سزائیں منصوبے کا حصہ تھیں، شوکت ترین کا کرپشن کیس ختم کرنے کے لئے سپریم کورٹ کو فیض حمید نے مینج کیا تھا، کہیں ’جوائی کورٹ‘ کا چرچا ہے، اگر پچھلے کچھ برسوں میں اعلیٰ عدلیہ میں پچاس سیاسی کیس سنے گئے تو اڑتالیس بینچ کے ممبرز وہی مخصوس جج حضرات تھے۔

حماد غزنوی کے بقول قانون کی شدھ بدھ رکھنے والا ہر شخص کہہ رہا ہے کہ عدلیہ کے دو جج بیٹھ کر ملک کا آئین از سر نو تحریر کر دیتے ہیں، یعنی جس آئینی ترمیم کے لئے دو تہائی نمائندے درکار ہیں، یعنی لگ بھگ سترہ کروڑ لوگوں کے نمائندوں کی حمایت درکار ہے، وہ ’کارنامہ‘ دو جج سر انجام دے دیتے ہیں، اپنی مرضی کے جونئیر جج اوپر لانے کے لئے معزز عدلیہ حکومت کو سرِ عام بلیک میل کرتی ہے، اپنی مرضی کا اٹارنی جنرل لانے کے لئے پورے نظام کو مذاق بنا دیا جاتا ہے۔ جب عدالتیں لاقانونیت کا گڑھ بن جائیں تو کون سا انصاف اور کہاں کی عدلیہ۔پہلے بھی عدالتوں کی ناقابلِ رشک تاریخ میں بہت ’نازیبا حرکات‘ ہوتی رہی ہیں، مگر سترپوشی کا کچھ نہ کچھ اہتمام ضرور کر لیا جاتا تھا، اب تو یہ برہنہ کھیل سرِبازار، ہٹ دھرمی سے کھیلا جا رہا ہے۔ہماری آنکھوں کے سامنے اس ریاست کا اخلاقی دیوالا پٹ رہا ہے، کیا ہمیں خاموشی سے اس جرم کا نظارہ کرتے رہنا چاہئے؟ ہم شہری ہیں کہ تماش بین؟

گلوکار سجاد علی کی سوشل میڈیا پر وائرل بہن اصل میں کون ہے؟

Back to top button